حضرت سیدتنا
ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا بہت ذہین
بردبار صحابیہ تھیں ،ان کے صبر کا ایک واقعہ پڑھیں اور ایمان تازہ کریں چنانچہ
ان کا ایک بچہ بیمار تھا جب(ان کے شوہر)
حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو اپنے کام دھندے کے لئے باہر چلے گئے بچہ کی طبیعت بگڑ گئی اوراس کا سانس بہت زور
زور سے چلنے لگا ،اور انتقال کرگیا حضرت بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سوچا
کہ دن بھر کے تھکے ماندے میرے شوہر گھر آئیں گے اور بچے کے انتقال کی خبر سنیں گے
تو نہ کھانا کھائیں گے نہ آرام کر سکیں گے ۔
اس لئے اس
بہادر صابرہ خاتون رضی اللہ تعالی عنہا نے بچے کی لاش کو ایک الگ مکان میں لٹا کر
کپڑا اوڑھا دیا اور روزانہ کی طرح کھانا
پکایا اپنے شوہر کے لئےخوب بنائوسنگھار کرکے شوہر کے آنے کا انتظار کرنے لگیں جب
حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رات کو گھر میں آئے تو پوچھا کہ بچہ کا کیا حال
ہے۔۔۔ ؟
تو ام سلیم
رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہہ دیا کہ اب اس کا سانس ٹھہر گیا ہے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ مطمئن ہو گئے اور انہوں نے یہ سمجھا کہ سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے پھر
فوراً ہی کھانا سامنے آگیا اور انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھررات گئے جب وہ خوش ہوکر فارغ ہو کر بالکل مطمئن ہوگئے تو
بی بی ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ : اے میرے پیارے شوہر! مجھے یہ مسئلہ
بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو
کیا ہم کو برا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے ۔۔۔۔ ؟
حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہرگز
نہیں امانت والے کو اس کی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہے۔ شوہر کا یہ جواب سن کر
حضرت ام سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ اے میرے سرتاج! آج ہمارے گھر میں یہی
معاملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس خدا کی ایک امانت تھا آج خدا نے وہ
امانت واپس لے لی اور ہمارا بچہ مرگیا یہ سن کر حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بولے کہ کیا میرا بچہ مر گیا ۔۔۔ ؟
بی بی نے کہا کہ ''جی ہاں'' حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اس کے سانس کا کھنچاؤ تھم گیا ہے
بیوی نے کہا کہ جی ہاں مرنے والا کہاں سانس لیتاہے؟ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو بے حد افسوس ہوا کہ ہائے میرے بچے کی لاش گھر میں پڑی رہی اور میں نے بھر
پیٹ کھانا کھایا ۔
بیوی نے
اپنا خیال ظاہر کر دیا کہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے گھر آئے تھے میں فوراً ہی اگر
بچے کی موت کا حال کہہ دیتی تو آپ رنج و غم میں ڈوب جاتے نہ کھانا کھاتے نہ آرام
کرتے اس لیے میں نے اس خبر کو چھپایا حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو مسجد
نبوی ﷺمیں نماز فجر کے لیے گئے
اور رات کا پورا ماجرا حضور ﷺ سے عرض کردیا
آپ ﷺ نے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے لیے یہ دعا فرمائی ۔ تمہاری اس رات
میں اﷲ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے اس دعائے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ اسی
رات میں حضرت بی بی ام سلیم کے حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا جس کانام عبداﷲ
رکھاگیا اور
ان عبداﷲ کے بیٹوں میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے۔
(جنتی زیور ، ص:515 ، مدینہ لائبریری ، دعوتِ اسلامی ،
بالاختصار)
( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)