سیدنا فاروقِ اعظم رضي اللہ عنہ کا احساسِ ذمہ داری


ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کے وقت مدینہ منورہ کے مقدّس گلی  کُوچوں میں مدَنی دورہ فرمارہے تھے۔ اِس دوران آپ نے دیکھا کہ ایک عورت اپنے گھر میں چولہے پر دیگچی چڑھائے بیٹھی ہے اور اس کے بچے اردگرد بیٹھے رورہے ہیں ۔

حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عورت سے دریافت فرمایا،'' یہ بچے کیوں رورہے ہیں؟''اس عورت نے عرض کی ،''یہ بھوک کی وجہ سے رورہے ہیں۔'' آپ نے پوچھا،'' اس دیگچی میں کیا ہے؟''وہ بولی،'' میں نے ان بچوں کو بہلانے کے لئے اس میں پانی بھر کر چڑھادیا ہے تاکہ بچے یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ پک رہا ہے اور انتظار کر تے کر تے سوجائیں۔''

یہ سن کر حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے قرار ہوگئے اورفوراًواپس لوٹے۔آپ نے ایک بڑی سی بوری میں آٹا ،گھی ،چربی ،چھوہارے ، کپڑے اور روپے منہ تک بھر لئے اور اپنے غلام اسلم سے ارشاد فرمایا ،''اسلم! یہ بوری ہماری پیٹھ پر لاد' دو ۔''انہوں نے عرض کی ،''اے امیر المؤمنین !اسے میں اپنی پیٹھ پر اٹھا لیتا ہوں۔''تو آپ نے ارشاد فرمایا،'' نہیں! اسے میں ہی اٹھاؤں گا ـکیونکہ اس کا سوال آخرت میں مجھ ہی سے ہو نا ہے ۔''
پھر وہ بوری اپنی پشت مبارک پر اٹھا کر اس عورت کے گھر لے گئے اور اس دیگچی میں آٹا ،چربی اور چھوہارے ڈال کر اسے چولہے پر چڑھایا اور کھانا تیار کرنے لگے۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو اس عورت کے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔ اس کے بعد باہر صحن میں تشریف لے آئے اور ان بچوں کے سامنے اس انداز میں بیٹھ گئے جیسے کوئی جانور بیٹھتا ہے ۔

 آپ کے غلام اسلم کا بیان ہے کہ میں آپ کے رعب کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکا۔ آپ کافی دیر یونہی بیٹھے رہے یہاں تک کہ بچے آپ کے ساتھ ہنسنے کھیلنے لگے۔جب آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے واپس تشریف لارہے تھے تو اپنے غلام سے دریافت فرمانے لگے ،''تم جانتے ہو کہ میں ان بچوں کے ساتھ اس طرح کیوں بیٹھا تھا؟''غلام نے عرض کی،'' نہیں !'' تو ارشاد فرمایا ، جب میں نے انہیں روتا ہوا دیکھا تو مجھے یہ گوارا نہ ہوا کہ انہیں یونہی چھوڑ کر آجاؤں،لہذا! جب بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ طاری ہوئی تو میرا 
دل شاد ہوگیا ۔

(کنزالعمال ، کتاب الفضائل ، باب فضل الصحابۃ ، ج۱۲، ص ۴۵۶، رقم  : ۳۵۹۷۳)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)