(۱۱)بچپن
سے ہی دینی تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند
ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں لہذا بچوں کو
اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر
ان کی بہترین تربیت کی جائے ۔
(۱۲)جب بچہ یا بچی سات برس کے
ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر
ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے
مسائل بھی بتائیں۔
(۱۳)اپنے بچوں کی صحبت کو
اچھی طرح دیکھ لیں سلجھے ہوئے اچھے اخلاق والے کھیل تماشوں سے دور'ناچ گانے' سینما
تھیٹر' وغیرہ لغویات سے بچنے والے بچے ہی آپ کے بچوں کے دوست ہوں۔
(۱۴)بچوں کے نام بزرگوں کے
ناموں پر رکھیں ،برے نام نہ ہوں کہ اس کے برے اثرات ہوتے ہیں۔
(۱۵)پیدائش کے ساتویں دن سر
منڈا کر بالوں کے وزن کے بر ابرچاندی خیرات کریں ،عقیقہ بھی کرلیں اور بچے کا کوئی
اچھا نام رکھیں۔
(۱۶)جب بچہ پیدا ہو تو
فوراً ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور
بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور چھوہارہ وغیرہ
کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور بااخلاق ہو۔
(۱۷)نیا میوہ' نیا پھل' پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود
کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔
(۱۸)چند بچے بچیاں ہوں تو جو
چیزیں دیں سب کو یکساں اور برابردیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں۔ ورنہ بچوں کی حق
تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز بچوں کے برابر ہی دیں۔
(۱۹)لڑکیوں کو لباس اور زیور
سے آراستہ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رکھیں تاکہ لوگ رغبت کے ساتھ نکاح کا پیغام
دیں۔
(۲۰)حتی الامکان بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
(۲۰)حتی الامکان بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
کہ ہمیں کسی کی حق تلفی سے محفوظ فرمائے
،،، آمین ۔
( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)