یہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ''حضرت
ز ید بن حارثہ'' رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہیں۔ ان کی ماں کی کنیت ''ام ایمن
''اورنام ''برکہ ''تھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کا لقب''محبوب رسول''ہے۔
وفات اقدس کے وقت ان کی عمر صرف بیس سال کی تھی مگرحضورعلیہ الصلوۃ والسلام
نے ان کو اس لشکر کاسپہ سالار بنایا تھا جو رومیوں سے جنگ کے لئے جارہا تھا اورجس
لشکر میں تمام بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود تھے ۔
لیکن حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات اقدس کی و جہ سے یہ لشکر واپس آگیا
مگر پھر امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ اس لشکر کو
بھیجا جو فتح یاب ہوکر آیا۔
چونکہ یہ ''محبوب رسول ''تھے اسی لئے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ ان کا بے حداکرام و احترام فرماتے تھے ۔
جب آپ نے اپنے دور خلافت میں مجاہدین
کی تنخواہیں مقرر فرمائیں تو ان کی تنخواہ ساڑھے تین ہزاردرہم مقرر فرمائی اور
اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنخواہ صرف تین ہزاردرہم
مقررفرمائی۔
صاحبزادے نے عرض کیا کہ اے امیر
المؤمنین! آپ نے حضرت اسامہ کی تنخواہ مجھ سے زیادہ کیوں مقرر فرمائی جبکہ وہ کسی
جہا دمیں بھی مجھ سے آگے نہیں رہے؟
اس کے جواب میں امیرالمؤمنین نے فرمایا:اس لئے کہ اُسامہ کے باپ''زید''
تمہارے باپ ''عمر'' سے زیادہ رسول خدا عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے
محبوب تھے اور ''اسامہ''تم سے زیادہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے محبوب
ہیں۔
حضوراکرم علیہ الصلوۃ والسلام نے
حجۃ الوداع میں طواف زیارت کو اس لئے کچھ مؤخر کردیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کسی حاجت کی و جہ سے کہیں چلے گئے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد حضرت اسامہ واپس
آئے لوگوں نے دیکھا کہ چپٹی ناک اورکالے رنگ کا ایک لڑکا ہے تو یمن کے کچھ لوگوں
نے حقارت کے انداز میں یہ کہا کہ کیا اسی چپٹی ناک والے کالے لڑکے کی و جہ سے آج
ہم لوگوں کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے طواف زیارت سے روک رکھاتھا؟اس طرح ان یمن
والوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے ادبی کی ۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ
عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بے ادبی کرنے ہی
کا وبال تھا کہ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد یمن کے یہ
بے ادبی کرنے والے لوگ کافر ومرتدہوگئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی فوجوں نے ان لوگوں سے جہاد کیا توکچھ ان میں سے توبہ کر کے پھر مسلمان ہوگئے
اورکچھ قتل ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور
ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین ۔
( کراماتِ صحابہ، ص ؛ 294 تا 296 ، مدینہ لائبریری
، دعوت اسلامی )