قبر کی تنہائی اور رحمتِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ


 منقول ہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا لطف وکرم بندے پر اس وقت بہت زیادہ ہوتاہے جب اس کو قبر میں اُتارا جاتا ہے اورسخت مِٹی اس کے نرم و نازک رُخسار پر رکھ دی جاتی ہے اور اس کے قرب میں رہنے والے، محبت کرنے والے جب بے وفائی کر جاتے ہیں ۔ جب میت کواوّلاً تختۂ غسل پر رکھ کر اس کا لباس اُتار دیا جاتا ہے تو وہ اپنے احباب سے مایوس ہو کر پکارتاہے : ''ہائے بربادی و رسوائی !''اس کی ندا سوائے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کوئی نہیں سنتا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ''میرے بندے !میں نے دنیامیں تیری پردہ پوشی کی آخرت میں بھی پردہ پوشی کروں گا۔''
جب میت کو چارپائی پر رکھ کر گھر سے سوئے قبرستان چل پڑتے ہیں تو وہ چلاتا ہے: ہائے تنہائی !''اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے: ''اے میرے بندے !اگر تو آج تنہا ہے تو میں ہمیشہ تیرے قریب ہوں۔ خوف نہ رکھ میں تیرے گناہ مٹا دوں گا، قبر میں تیری تنہائی پر رحم کروں گا،میں تیری تنہائی میں تیرا 
مونِس ہوں ۔''

جب لوگ اس کو لحد میں اتار کر اس کے نرم و نازک رخسار کو سخت مٹی پر رکھ کر پلٹ جاتے ہیں تو وہ چیختاہے:''ہائے تنہائی!'' اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:''اے میرے بندے!کیا تجھے وحشت ہوتی ہے جبکہ میں تیرا انيس ہوں، کیا تو اکیلے پن کی شکایت کرتا ہے جبکہ میں تیرے قریب ہوں ۔ اے میرے بندے !کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟'' عرض کریگا :''کیوں نہیں۔ اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ !۔''اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا:''اے میرے بندے !کیسے تو نے اس چیز کو چھوڑ دیا جس کا میں نے تجھے حکم دیا تھا؟اور کیسے اس کا مرتکب ہوا جس سے میں نے تجھے منع کیا تھا ؟کیا تجھے معلوم نہ تھاکہ تجھے میری طرف پلٹنا ہے؟ تیرے اعمال میرے سامنے پیش ہوں گے؟کیا تو نے میرے عہد کو بھلا دیا تھا ؟یا تو میرے وعدے اور وعید کا منکر تھا؟اب تیرے دوستوں نے تجھے تنہا چھوڑ دیا ،مال تیرے ہاتھ سے چھوٹ گیا ،مال نے تیرے مقصد میں تجھے کوئی نفع نہ دیا ،نہ دوستوں نے تجھے تیرے برے اعمال سے بچایا ۔اب تیرے پاس کیاعذر ہے؟

    بندہ عرض کریگا:''اے میرے پروردگا رعَزَّوَجَلَّ !میرا دل مال ودولت کی محبت میں گرفتار ہوا، ان دونوں نے مجھے گناہوں پر آمادہ کیا، اب میں تیرے جوار رحمت میں ہوں اور تیرااس رات مہمان ہوں تو مجھے اپنی آگ سے عذاب نہ دینا ،اگر تو ہی مجھ پر رحم نہیں فرمائے گا تو پھر کون رحم کریگا؟''اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا: ''اے میرے بندے! لوگوں نے تجھے چھوڑ دیا اور اگر وہ تیرے پاس رہتے تو بھی تجھے ان سے نفع نہ ہوتا، انہوں نے تجھے میرے دروازے کی طرف متوجہ کر دیا اور میرے رحم و کرم پر چھوڑ کر گئے ہیں ۔اے میرے بندے!ٹھنڈا سانس لے اور آنکھوں کو بھی ٹھنڈا کر لے کہ تو آج رات میرا مہمان ہے اور کریم اپنے مہمان کو محروم نہیں چھوڑتا ۔ اے فرشتو! احسن طریقے سے اس کی مہمان نوازی کرو اور اس پر اس کے گھر والوں اورقرابت داروں سے زیادہ مہربان ہوجاؤ۔ ‘‘

    حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور سید الْمبلِغین ﷺ کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:''اگر تمہاری خطائیں آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ کرو تو ضرور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔
   
(سنن ابن ماجۃ ، ابواب الزھد،الحدیث۴۲۴۸،ص۳۵ ۲۷)


)حکایتیں اور نصیحتیں ص 640۔641)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)(