یہ قبیلہ انصار کے خاندان خزرج کے
بہت ہی نامی گرامی شخص ہیں اور دربار رسالت کے خاص شاعر ہونے کی حیثیت سے تمام صحابہ کرام میں ایک
خصوصی امتیاز کے ساتھ ممتاز ہیں ۔
آپ نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم کی مدح میں بہت سے قصائد لکھے اورکفار مکہ جو شان رسالت میں ہجو
لکھ کر بے ادبیاں کرتے تھے آپ اپنے اشعار میں ان کا دندان شکن جواب دیا کرتے تھے ۔
حضور شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم ان کے لیے خاص طور پرمسجد نبوی علی صاحبہاالصلوٰۃ والسلام میں منبر
رکھواتے تھے جس پر کھڑے ہوکر یہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
کی شان اقدس میں نعت خوانی کرتے تھے ۔
ان کی کنیت ''ابوالولید ''ہے اور
ان کے والد کا نام ''ثابت ''ہے او ران چاروں کے بارے میں ایک تاریخی لطیفہ یہ ہے
کہ ان کے والد ، دادا ، پر دادا اور خود ان کی عمر
یں ایک سو بیس برس کی ہوئیں جو
عجائباتِ عالم میں سے ایک عجوبہ ہے ۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی ایک سو بیس برس کی عمر میں سے ساٹھ برس جاہلیت اورساٹھ برس اسلام
میں گزرے ۔ 40ھ میں آپ کا وصال ہوا۔
ان کی ایک خاص کرامت یہ ہے کہ جب
تک یہ نعت خوانی فرماتے رہتے تھے،حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کی امداد ونصرت کے لیے ان کے پاس موجود رہتے تھے
کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشادفرمایا
ہے : اِنَّ اللہَ یُؤَیِّدُ
حَسَّانَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَا نَافَحَ اَوْفَاخَرَ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی
اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (یعنی جب تک حسان میری طرف سے کفار کو مدافعانہ جوا ب دیتے اور میرے بارے میں
اظہار فخر کرتے رہتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام ان کی مدد فرماتے رہتے ہیں۔
جبلہ غسانی جو خاندا ن جفنہ کا
ایک فرد تھا اس نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ہدیہ کے طور پر کچھ سامان
حضرت امیر المؤمنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوہدیہ سپرد کرنے کے لیے بلایا۔
جب حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ خلافت میں پہنچے تو چوکھٹ پر کھڑے
ہوکر سلام کیا اور عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! مجھے خاندان جفنہ کے ہدیوں کی
خوشبو آرہی ہے جو آپ کے پاس ہیں ۔ آپ نے ارشادفرمایا کہ ہاں جبلہ غسانی نے تمہارے
لئے ہدیہ بھیجا ہے جو کہ میرے پاس ہے ۔ اسی لئے میں نے تم کو طلب کیاہے۔
اس واقعہ کو نقل کرنے والے کا بیان
ہے کہ خدا کی قسم!حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حیرت انگیز وتعجب خیز بات
میں کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا کہ انہیں اس ہدیہ کی کسی نے پہلے سے کوئی خبر
نہیں دی تھی پھر آخر انہیں چوکھٹ پر کھڑے ہوتے ہی اس ہدیہ کی خوشبو کیسے اورکیونکر
محسوس ہوگئی؟ اور انہوں نے اس چیز کو کیسے سونگھ لیا کہ وہ ہدیہ خاندان جفنہ سے یہاں آیا ہے ۔
بلاخوشبووالے سامانوں کو سونگھ کر
جان لینا اور پھر یہ بھی سونگھ لینا کہ ہدیہ دینے والا کس خاندان کا آدمی ہے ؟ظاہر
ہے کہ یہ چیزیں سونگھنے کی نہیں ہیں پھر بھی ان کو سونگھ لینا اس کو کرامت کے سوا
اورکیا کہا جاسکتاہے ؟
اللہ تعالیٰ کی
ان پر رحمت ہو اور ان کےصدقے ہماری مغفرت ہو ،،، آمین۔
(کرامات ِصحابہ ،ص؛318 تا 321 ، مکتبۃ المدینہ ، دعوت اسلامی )
( منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)