Mujhay Is Deen Me Shamil Karlo



مریم ایک غیر مسلم لڑکی تھی اور ایک ہسپتال میں بطور ِنرس خدمات انجام دیتی تھی  ۔
اس کی زندگی میں ہسپتال اور  انٹرنیٹ  کے علاوہ  کوئی تیسری چیز نہ تھی ۔
ایک صبح  جب وہ ہسپتال پہنچی تو اسکی ذمہ داری ایک ایسے روم میں لگا دی گئی جہاں  کسی دوسرے ملک سے کوئی بڑی عمر کی مریضہ آئی ہوئی تھی،اس کے ساتھ اسکی بہو اور بیٹا  تھے ، روم میں  پہنچ کر دیکھا تو وہ مسلمان معلوم ہو رہے تھے  ۔اور لوگ بھی مذہبی لگ رہے تھے۔
اس کی  زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلما ن کو اتنی قریب سے دیکھ سکے،اس کے لئے ایک عجیب بات یہ نظر آئی کہ مریضہ کی حالت بگڑتی تواسکےبیٹےکےساتھ ساتھ اسکی بہوبھی پریشان ہوجاتی بلکہ بعض اوقات رونےلگتی  ۔
بیٹا داڑھی والا بہو پردے داراور اس بوڑھی عورت کے لئے دل و جان سے خدمت کرنا ۔اس بوڑھی عورت کی خیریت معلوم کرنے کے لئے  بار بار فون بھی آرہے تھے۔
اسے بڑا تعجب ہوتا تھا کہ یہ لڑکی اپنی ساس کے لیے اس قدر فکر مند ہے جبکہ یہ اس کی ماں بھی نہیں ہے اور ایک ہمارا ماحول ہے کہ ساس تو دور کی بات سگے ماں باپ کو اولڈ ہاوس کے حوالے کردیا جاتا ہے، وہ خود ہے ،جسے اپنی ماں کی خیریت پوچھے ہوئے بھی کئی ماہ گزر چکے ہیں  ۔ اسے مسلمانوں کایہ محبت بھراخاندانی نظام بہت اچھالگا ۔
بوڑھی کو جب  تکلیف بڑھتی تو کچھ پڑھنے  لگتی ،جس سے سکون ملنا شروع ہوجاتا۔
بالآخر اس نے بہو سے ڈرتے ڈرتے اپنے جذبات کا اظہار کرہی دیا،جواب میں بہو نے اپنے بیگ میں سے اسلامی معاشرے کی بہترین تصویر کی عکاسی کرتا ہوا، ایک رسالہ نکال کر اس کے حوالے کیا یعنی  جس کا نام تھا  احترام مسلمThe Respect of a Muslim

رسالہ پڑھا تو بہت حیران ہوئی اور مزید اسلام جاننے کی تمنا میں ایک اسلامی ویب اور اسلامی انگلش چینل دیکھنا شروع کردیایہاں تک  کہ وہ اسلام سے  مزید متأثر ہوتی چلی گئی۔اور پھر ایک وقت آیا کہ اس کے دل اسلام کی شمع روشن ہوگئی یعنی اس نے اسلام قبول کرلیا  ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے سوچا کہ سب سے  پہلے وہ اپنی ماں کو جا کر یہ خوش خبری سنائے  گی چنانچہ وہ خوشی خوشی ماں سے ملنے اس کے گھر پہنچی    ۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا وہاں جاکرمعاملہ بالکل الٹ ہو گیا، اس کی ماں نے جیسے ہی یہ سنا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے تو نہ صرف سخت ناراضی کا اظہار کیا بلکہ فورًٍٍٍا گھر سے نکل جانے کا بول کر خود اپنے روم میں جاکراندر سے دروازہ بندکر لیا ۔
مریم کی خوشی کے ساتھ ساتھ یہ نئی پریشانی بھی مل گئی ،  وہ کافی مایوس ہوئی ، ایک طرف اسلام جیسا خوبصورت مذہب تو دوسری طرف ماں جیسی ہستی جسے اسلام نے ہی اس کی نظروں میں قدر بخشی تھی، وہ کافی دیر اکیلی بیٹھی سوچتی رہی اور پھر ایک بھرپور فیصلہ کیا کہ وہ اسلام کوکسی صورت نہیں چھوڑے گی بلکہ جس اسلامی اخلاق نے اسے اسلام جیسی نعمت دی ہے انہی اخلاق کے ذریعے وہ اپنی ماں کو بھی دامن اسلام میں لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
وقت گزرتا رہا مریم اپنی ماں کو منانے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی  مگر ہر کوشش بے کار ثابت ہوئی ۔اسی تگ و دو  میں کافی وقت بیت گیا، مریم کو بارہا انتہائی  سخت حالات سے بھی گزرنا پڑا مگر وہ چٹان کی طرح  اپنے اراد ے پر قائم رہی  کیونکہ اس کی منزل اپنے اخلاق کے ذریعے ماں کو اسلام قبول کروانا تھا ۔
ایک دن دیگر بہن بھائیوں نے آپس یہ مشورہ کیا کہ ماں کو اب اولڈ ہاءوس میں جمع کروادینا چاہئے ۔ ماں کو جب یہ بات پتہ چلی تو وہ رونے لگی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی سامان پیک ہورہا تھا کہ اچانک مریم بول پڑی ماں یہاں سے نہیں جائے گی۔
تو اسے سنبھالے کون؟ ایک بھائی نے غصہ میں کہا
میں سنبھالوں گی۔مریم نے جھٹ جواب دیا
لیکن ماں والے کمرے کی ہمیں ضرورت بھی ہے۔ایک اور بہن نے کہا
کوئی بات نہیں ۔ماں میرے ساتھ میرے فلیٹ  میں رہ لے گی۔
اور یوں ماں اولڈ ہاوس جاتے جاتے رک گئی ،ماں  سوچ میں پڑ گئی کہ اگر مریم آج  مسلمان نہ ہوتی تو میرا کیا بنتا ؟
اور اس کے دل میں بھی اسلام کی محبت پیدا ہونا شروع ہوگئی، پھر ایک دن  ا چانک مریم کی  ماں کی طبیعت خراب ہوگئی  ، ہسپتال لیجایا گیا  توڈاکٹر نے  بتایا کہ اسے بلڈ کینسر ہے  یہ خبر  اس کی ماں کے لیے کسی بڑے سے بڑے صدمے  سے کم نہ تھی ۔ وہ  دن بدن گھلتی جا رہی تھی  ۔یورپ کے ماحول کے مطابق باقی اولاد،رشتے دار، اپنے کاموں میں مصروف رہتے اور کبھی کبھی اس کا حال بھی پوچھ لیتے  جبکہ مریم پر اسلام کی تعلیم کا ایسا اثر ہوا تھا  کہ وہ ماں کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی بلکہ  جب سےماں کی طبعیت خراب رہنے لگی تھی تب سےاس نے  ہسپتا ل میں بھی وقت کم کردیا سیدھا ماں کے پاس  آجاتی تھی ۔ماں کے سامنے نماز میں اپنی ماں کی ہدایت اور صحت کے لئے اللہ تعالی سے دعائیں بھی مانگتی۔
اب ماں کوبار بار  اپنے وہ  بھیانک سلوک بھی یاد آتے  جو اس نے مریم کے ساتھ روا رکھے تھے  وہ حیران ہوتی کہ اس کے باوجود مریم اس کی اتنی خدمت کرتی ہے اور کبھی  سابقہ حالات کا  گِلہ بھی نہیں کرتی جبکہ اس کا ایک حصہ بھی اگر اپنے کسی اور بچےکے ساتھ کرتی تو نتیجہ یکسر مختلف ہونا تھا۔
ایک دن اس نے ہمت کر کے یہ سب خیالات مریم کو بتائے اور  مریم کا شکریہ ادا کرنے لگی ۔ مریم مسکرا ئی  اور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولی ۔۔۔۔۔    امی  جوبھی تبدیلی  آپ میرے اندر دیکھ رہی ہیں اس کا سہرامیرے پیارے ،مذہب اسلام کے سر جاتا ہے۔ اس خوبصورت دین کی تعلیمات ہی اتنی  عمدہ ہیں کہ جو ان پر عمل کرنے لگتاہے وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی اچھا بن جاتا ہے ، وہ اخلاق کا ایک بہترین نمونہ بن جاتا ہے ، وہ بعض اوقات خود تکلیف برداشت کرلے گا لیکن دوسروں کو تکلیف میں رہنے نہیں  دیتا  ، اسکی تعلیمات پر عمل کر کے جو سکون و اطمنان کی دولت حاصل ہوتی ہےوہ کسی اور کام میں حاصل نہیں ہو پاتی ،اسلام چھوٹوں سے محبت اور  بڑوں کے احترام سکھاتا ہے اور اپنے دیگر رشتے داروں اور خصوصا ماں  کی  بہت زیادہ خدمت کا درس دیتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔
رک جاؤ مریم ۔مریم کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ ماں نےمریم کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے بولا
بیٹا ۔۔بیٹا ۔۔۔ مجھےبھی اس پیارے دین میں شامل کرلو  ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ماں کی آواز کانپ رہی  تھی ، آنسو رواں تھے اور انداز  التجائیہ تھا۔
مریم نےانکاہاتھ فوراً اپنےہاتھ میں لے کر جلدی جلدی کلمہ پڑھانا شروع کردیا۔
اورمریم کےبھی آنسو رواں تھے مگر یہ آنسوخوشی کےتھے کیونکہ وہ بہت لمبےاور تکلیف دہ سفرکےبعدیہاں  تک پہنچی تھی کہ اس کی ماں نےبھی اسلام قبول کرلیاتھا ۔وہ مسلمان ہوچکی تھی ،دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے رو رہی تھیں ۔لیکن ان کے دلوں کو جوسکون آج ملا تھا اس کا تصور بھی اس سے قبل انہوں نہ کیا تھا۔
والحمد للہ
عاشقان  رسول یہ ایک فرضی واقعہ ہے ۔لیکن کیا آپ اپنے اخلاق سے حقیقی واقعہ نہیں بناسکتے۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو تو ان کے دشمنوں نے بھی صادق و امین کہہ کر پکارا ہے۔پیارے آقاصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خون کے پیاسوں کو معاف کیا ہے۔آئیے آج کے اس دور میں ہم بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول کے ساتھ وابستہ ہوجائیں ۔