حضرت ام سلمہ



ام المؤمنین سیدتنا
اُمِّ سَلَمَہْ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اصل نام ہند بنت ابو امیہ ہے اور ام سلمہ کنیت ہے آپ کی پیدائش ایک امیر گھرانے میں ہوئی تھی ۔ آپ کے والد کا نام سہیل اور والدہ کا نام عاتکہ تھا ۔
آپ کے والد  قبیلہ مخزوم کے ایک بڑے سردار اور انتہائی سخی شخص تھے ۔  قافلے جب بھی ان کےساتھ سفر کرتے تو اپنے ساتھ زادِ راہ لے کر نہ جاتے۔کیونکہ پورے قافلے کے اخراجات یہ خود اٹھا تے تھے۔(الاصابہ ۔ ۸ ، ۴۰۴)
آپ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضورﷺ سےپہلے ابوسلمہ عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بن عبدالاسد سے ہوا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہوئیں۔ آپ دونوں کا شماران اشخاص میں ہوتا ہے جوابتدائے اسلام  میں ایمان لائے (الاصابہ ۔ ۸ ، ۴۰۴)
ان میاں بیوی نے اوّلاً حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر کسی غلط فہمی کی بنیاد پر واپس مکہ مکرمہ آگئے اور جب رسول اکرم نے مدینہ منورہ ہجرت  کا حکم دیاتو پہلے پہل مدینہ منورہ ہجرت کرنے والوں میں آپ کا تین افراد پر مشتمل گھرانہ بھی تھا جس کا درد ناک واقعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کی زبانی سنئے چنانچہ
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں‘‘ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ ہجرت کا عزم فرما لیا تو مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کرچلنا شروع کر دیا۔ابھی ہم مکہ مکرمہ کی حدود سے بھی نہ نکلے تھے کہ میری قوم بنومخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ  کر ہمارا راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا
’’ اگر تم نےتو اپنی مرضی کو قوم پر ترجیح دے دی لیکن یہ ہماری بیٹی ہے ہم اسے تمہارے ساتھ جانے نہیں دیں گے،یہ کہہ کر وہ آگے بڑھےاور مجھے جانے سے روک دیا  ‘‘
جب میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ عنہ  کی قوم بنواسد نے یہ منظر دیکھا تو غضبناک ہوکر کہنے لگے کہ
خداکی قسم! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس اپنا بچہ نہیں رہنے دیں گے۔ یہ ہمارا بیٹا ہے  اوراس پر ہمارا حق ہے۔ یوں وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس کھینچا تانی میں میرے بیٹے سلمہ کا ہاتھ بھی اتر گیا  یہ سب میرے لئے ناقابل برداشت تھا۔ شوہر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے تھے ۔بیٹے کو بنو عبد الاسد لے گئے  تھےاور مجھے میری قوم بنومخزوم نے اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔یوں ہمارے درمیان پل بھر میں جدائی ڈال دی گئی۔
میں غم دور کرنے کے لئے ہر صبح اس جگہ جاتی جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کے وقت گھر واپس آجاتی ،تقریبا ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
ایک دن میں وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا ایک چچا زاد بھائی میرے پاس سے گزرا۔میرا یہ حال دیکھ کر اسے رحم آگیا اور اسی وقت جا کر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس عورت کو کیوں تڑپا رہے ہو۔کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں کس قدر تڑپ رہی  ہے آخر اسے ستانے سے تمھیں کیا ملے گا۔؟ چھوڑ دو اس بیچاری کو۔‘‘
اس کی یہ باتیں سن کرمیرے قبیلے والوں کےدل نرم ہوگئےاور مجھ سےکہا کہ ہماری طرف سےاجازت ہےچاہوتواپنےخاوند کے پاس جاسکتی ہو
میں نے کہا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں مدینہ منورہ  چلی جاؤں اور میرا بیٹا بنو اسد کے پاس رہے ؟
یہ سن کر کچھ لوگوں نے بنو اسد سے بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور میرا بیٹا مجھے واپس دے دیا۔
میں نے جلدی جلدی تیاری کی اور سوئے مدینہ منورہ اکیلی ہی  چل پڑی،مخلوق خدا میں بیٹے کے علاوہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ تھا جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے انہوں نے کہ ’’اے بیٹی کہاں جا رہی ہو؟‘
میں نے کہا :۔ مدینہ منورہ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں ۔
انہوں نے کہا:۔ کیا اس سفر میں تمہارے ساتھ کوئی نہیں؟
میں نے کہا:۔ بخدا ! میرے ساتھ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں۔
وہ کہنے لگے کہ ’’اللہ کی قسم ! اب میں تمہیں مدینہ منورہ پہنچا کر ہی واپس آؤں گا‘‘ اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے چل دیے۔
اللہ کی قسم! میں نے عرب میں اس سے زیادہ نیک دل اور شریف انسان نہیں دیکھا۔جب یہ ایک منزل طے کر لیتے تو ،میرے اونٹ کو بٹھا دیتے پھر دور ہٹ جاتے،۔جب میں اتر آتی تو اونٹ سے ہودج اتار کراسے درخت کے ساتھ باندھ دیتے پھر خود دوسرے درخت کے سائے میں لیٹ جاتے۔ روانگی کے وقت اونٹ تیار کر کے میرے پاس لاتے۔ میں اونٹ پر سوار ہو جاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر چل دیتے۔ مدینہ منورہ پہنچنے تک اسی طرح میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔
جب بنو عمرو کی بستی نظرآئی تو مجھے کہا کہ‘‘ آپ کا خاوند اس بستی میں رہائش پذیر ہے ۔ اس میں چلی جائیے۔‘‘ ہمیں وہاں چھوڑ کر وہ مکہ معظمہ واپس لوٹ گئے ۔(اسد الغابۃ ،۷، ۳۲۹  ملخصا)
آپ کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو غزوہ احد میں ایک گہرا زخم لگا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر صاحبِ فراش ہو گئے ۔ اس زخم کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانچ یا سات ماہ تک حیات رہ کر وصال فرماگئے ۔    ( تھذیب التھذیب ،۱۲، ۴۵۶)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس کم عمراولاد کےعلاوہ عزیز و اقارب میں سے کوئی  دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا ۔
اس صورت حال کے پیش نظر ایام عدت گزر جانے کےبعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے  نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیش کش کی،وہ بھی آپ نے قبول نہ کی ، پھر چند دن  بعد رسول اللہﷺنے پیش کش کی تو اوّلاً آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے پیارے آقا ﷺ کے مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے کچھ معروضات  پیش کیں جس پر پیارے آقا ﷺ کی لطف  و کرم سے بھر پور گفتگو سن کر بخوشی رضامند ہوگئیں اور  ام المومنین کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوگئیں  ۔ (صفۃ الصفوۃ،۱، ۳۲۴)
حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے چوراسی سال عمر پائی اور امہات المؤمنین میں سب سے آخرمیں آپ کا وصال ہوا، امام ابن حبان کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی وفات حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد سن اکسٹھ ہجری آٹھ شوّال کوہوئی ۔ امام واقدی کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اور آخری آرام گاہ جنت البقیع میں بنی ۔ (الاصا بہ،۸، ۳۴۴)