دوکاندار ایک آدمی کو مہنگے داموں، اور ایک عورت کو سستے داموں میں کیلے فروخت کیوں کر رہا تھا

دبئی کی ایک معروف مارکیٹ میں فروٹ لینے کے لئے گاہک نے دکان میں داخل ہو کر دکاندار سے پوچھا: کیلوں کا کیا بھاؤ لگایا ہے؟
دکاندار نے جواب دیا: کیلے بارہ درہم اور سیب دس درہم۔
اتنے میں ایک  باپردہ عورت بھی دکان میں داخل ہوئی اور کہا: مجھے ایک کیلو کیلے چاہیئں، کیا بھاؤ ہے؟
دکاندار نے کہا: کیلے تین درہم اور سیب دو درہم۔
عورت نے الحمد للہ پڑھا۔
دکان میں پہلے سے موجود گاہک نے کھا جانے والی غضبناک نظروں سے دکاندار کو دیکھا، اس سے پہلے کہ کچھ اول فول کہتا: دکاندار نے گاہک کو آنکھ مارتے ہوئے تھوڑا انتظار کرنے کو کہا۔
عورت خریداری کر کے خوشی خوشی دکان سے نکلتے ہوئے بڑبڑائی: اللہ تیرا شکر ہے، میرے بچے انہیں کھا کر بہت خوش ہونگے۔
عورت کے جانے کے بعد، دکاندار نے پہلے سے موجود گاہک کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا: بھائی برا ماننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ  میں نے آپ کو کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔
یہ عورت چار یتیم بچوں کی ماں ہے۔عورتوں بچوں کے کپڑے سی کر اپنا گزربسر کرتی ہے، کسی سے بھی کسی قسم کی مدد لینے کو تیار نہیں ہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی ہے اور ہر بار ناکامی ہوئی ہے۔ اب مجھے یہی طریقہ سوجھا ہے کہ جب کبھی آئے تو اسے کم سے کم دام لگا کو چیز دیدوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا بھرم قائم رہے اور اسے لگے کہ وہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔ میں یہ تجارت اللہ کے ساتھ کرتا ہوں اور اسی کی رضا و خوشنودی کا طالب ہوں۔
مزید دکاندار بتانے لگا: یہ عورت ہفتے میں ایک بار آتی ہے۔ اور جس دن یہ آ جائے، اُس دن میری بکری بڑھ جاتی ہے اور اللہ کے غیبی خزانے سے منافع دو چند ہوتا ہے۔
گاہک کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اُس نے بڑھ کر دکاندار کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا: بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں جو لذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جس نے آزمایا ہو۔
حدیث پاک میں ہے(الدین النصح لکلّ مسلم(
دین ہر مسلمان کی خیر خواہی کا نام ہے۔(2)
سنن النسائی ، الحدیث: ۴۲۰۳-۴۲۰۶، ص۶۸۴-۶۸۵.
)منقول(