اِسلامی تعلیمات سے دور مُعاشَرے
جن اَخلاقی پستیوں کا شکار ہیں، ان میں سے ایک ماں باپ کی قدروتعظیم کا فُقدان بھی
ہے۔ پیدا ہوتے ہی بیٹے کے ڈاکٹر، انجینیئر، سرکاری آفیسر وغیرہ بننے کے
خیالات اور خواب دیکھنے والے ماں باپ اُس وقت قابلِ رحم ہوتے ہیں، جب ان کے پڑھے
لکھے (Well Educated) کہلانے والے بیٹے انہیں ایک کمرے تک محدود رہنے پر مجبور
کردیتے ہیں، یا پھر اولڈ ہاؤس کی زینت بنادیتے ہیں۔ توتلی زبان میں آدھی
آدھی باتیں کرنے والے بیٹے کی ساری باتیں سمجھ لینے والے ماں باپ جب
بڑھاپے میں ”آپ چپ رہیں، آپکو کیا پتا؟“ جیسے جملے سنتے ہیں، تو ان کا
دل کہتا ہے:ہمارے بیٹے کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔قرضداری، تنگ دستی، بےروزگاری جیسی
نجانے کتنی آزمائشوں کا سامنا کرکے ایک سے زائد بچوں کی یکساں پرورش
کرنے والے ماں باپ کو جب بڑھاپے میں دو وقت کھانا بھی’’ مانگنے‘‘
پر ملتا ہے تب وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ دُنیوی ترقی کی
دلدادہ اکثریت اپنے بیٹوں کو فقط دنیا سکھاتی اورعلمِ دین سے دُور رکھتی ہے، انہی
ماں باپ کو جب بڑھاپے میں یہ بیٹے اپنے لئے بوجھ اور سنبھالنا مصیبت سمجھتے ہیں تو
یہی ماں باپ کہتے ہیں کہ ہمارے
بیٹے کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔بیٹے کو علمِ
دین سکھایا ہوتا ،عالِم بنایا ہوتا تو ماں باپ کو شاید ایسا نہ کہنا پڑتا ۔
آخر ”بیٹے کو کیسا ہونا چاہئے؟“آئیے
اس سوال کا جواب اسلام سے پوچھتے ہیں۔ اسلام نے اچھےبیٹے کی جو خوبیاں اور ذمہ داریاں
بیان کی ہیں ان میں سے چندملاحطہ فرمائیے ، چنانچہ
٭”بیٹے کو“ماں باپ کے ساتھ حسنِ
سلوک اور نہایت نرمی سے پیش آنے والا، بوڑھے ماں باپ کو جھڑکنا اورغُصّہ دکھانا تو
درکنار اُف تک نہ کہنےوالا، شفقت و مہربانی کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی
کرنے والا اور اُن کےلئے اللہ ربُّ الْعِزَّت کی بارگاہ سے رحمت طلب کرنے
والا ہونا چاہئے۔( ماخوذ اَز: پ 15، بنی اسرائیل: 23تا24)
٭بیٹے کو ماں باپ کی خدمت کے دوران
پیش آنے والی ہر طرح کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والا ہونا چاہئے، جیسا کہ ایک صَحابی نے اپنی ماں کو کندھوں پر
اٹھائے، سخت گرم پتھروں والے رستے پر چلتے ہوئے چھ میل کا سفر طے کیا، وہ پتھر
اتنے گرم تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن پر ڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا۔(معجمِ صغیر،ج1،
ص92، حدیث: 257، ملخصاً)
٭بیٹے کو دن رات کی پرواہ کئے بغیر
والدین کی خدمت مصروف رہنے والا ہونا چاہئے جیسا
کہ حضرت سَیِّدُنا بایزید بسطامی
رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سخت
سرد رات میں ماں کے لئے پانی کا پیالہ لئے ساری رات کھڑے رہے، یہاں تک کہ
پانی بہہ کر انگلی پر جم گیا اور برتن انگلی سے چمٹ گیا، جب چھڑایا تو انگلی
سے جِلد اکھڑنے پر خون بہہ نکلا۔(نزہۃ المجالس،ج1،ص261،ملخصاً)
٭بیٹے کو ماں باپ کی ہر
ناگوار بات و ناروا سلوک پر صبر کرنے والا اور ہر حال میں ماں باپ کو راضی
رکھنے کی کوشش کرنے والاہونا چاہئے، جیسا کہ ایک بار رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: جس نے اِس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے صبح ہی کو جہنَّم کے دو دروازے کُھل جاتے
ہیں تو ایک شخص نے عرض کیا: اگرچِہ ماں باپ اُس پر ظلم کریں۔ فرمایا: اگر چِہ ظلم
کریں، اگرچِہ ظلم کریں، اگرچِہ ظلم کریں۔(شُعَبُ الایمان، ج6، ص206، حدیث:
7916)
٭بیٹے کو ماں باپ کی وفات کے بعد
بھی اُن کی عزت و آبرو کی حفاظت، ان کے قرض کی ادائیگی اور اُن کی قسمیں پوری کرنے
میں کوشش کرنے والا ہونا چاہئے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے: جو شخص اپنے والِدَین کے
(انتِقال کے) بعد ان کی قسم سچّی کرے اور ان کا قَرض اُتارے اور کسی کے ماں باپ کو
بُرا کہہ کر انہیں بُرا نہ کہلوائے وہ والِدین کے ساتھ بھلائی کرنے والا لکھا جائے
گا اگرچِہ(ان کی زندگی میں) ”نافرمان“ تھا۔(معجمِ اَ وْسَط،ج4، ص232، حدیث: 5819)
٭بیٹے کو خدمت و ضرورت کی وجہ سے
بلانے پر فوراً ماں باپ کےپاس حاضر ہوجاناچاہئے یہاں تک کہ اگر پردیس میں ہو تب
بھی، چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے:”یہ (یعنی بیٹا) پردیس میں ہے، والِدَین اِسے
بلاتے ہیں تو آنا ہی ہوگا، خط لکھنا کافی نہیں ہے۔ یوہیں والِدَین کو اِس کی خدمت
کی حاجت ہو تو آئے اور ان کی خدمت کرے۔“(بہارِ شریعت،ج3، ص559)
اللہ تعالیٰ ہر بیٹے کو اِسلامی اوصاف والا بیٹا بننے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین