جب انسان مرنے لگتا ہے تو اس کے پاس کتنے فرشتے آتے ہیں



     فرمان مصطفی ﷺ: جب آدمی پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے تو اللہ عزوجل اس کی طر ف پانچ فر شتے بھیجتاہے۔

 پہلافر شۃ اس کے پاس اس وقت آتا ہے جب اس کی روح حلقوم(یعنی حلق) تک پہنچتی ہے ۔ وہ فرشتہ اسے پکار کر کہتا ہے :''اے ابن آدم ! تیرا طاقتوربدن کہاں گیا؟ آج یہ کتنا کمزور ہے ؟ تیری فصیح زبان کہاں گئی ؟آج یہ کتنی خاموش ہے ؟ تیرے گھر والے اور عزیزواقرباء کہاں گئے؟ تجھے کس نے تنہاکردیا۔

     پھر جب اس کی رو ح قبض کرلی جاتی ہے اور کفن پہنادیا جاتاہے تو دوسرا فرشۃ اس کے پاس آتا ہے او راسے پکار کر کہتا ہے :''اے ابن آدم !تُو نے تنگدستی کے خوف سے جو مال واسباب جمع کیا تھا وہ کہاں گیا ؟ تُونے تباہی سے بچنے کے لئے گھر بسائے تھے وہ کہاں گئے؟ تُو نے تنہائی سے بچنے کے لیے جو اُنس تیار کیا تھا وہ کہاں گیا؟''

    پھر جب اس کا جنازہ اٹھایا جاتاہے تو تیسرا فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے پکا ر کر کہتا ہے:'' آج تُو ایک ایسے لمبے سفر کی طرف رواں دواں ہے جس سے لمبا سفر تُو نے آج سے پہلے کبھی طے نہیں کیا ،آج تُو ایسی قوم سے ملے گا کہ آج سے پہلے کبھی اس سے نہیں ملا ،آج تجھے ایسے تنگ مکان میں داخل کیاجائے گا کہ آج سے پہلے کبھی ایسی تنگ جگہ میں داخل نہ ہوا تھا، اگرتُو اللہ عزوجل کی رضا پانے میں کامیاب ہوگیا تو یہ تیری خوش بختی ہے او راگر اللہ عزوجل تجھ سے ناراض ہوا تویہ تیری بدبختی ہے ۔''

    پھر جب اسے لحد میں اتار دیا جاتاہے تو چوتھا فر شتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے پکار کر کہتا ہے:'' اے ابن آدم ! کل تک تُو زمین کی پیٹھ پرچلتا تھااور آج تُواس کے اندر لیٹا ہوا ہے ،کل تک تُو اس کی پیٹھ پرہنستا تھا او رآج تُو اس کے اندر رورہاہے، کل تک تُو اس کی پیٹھ پرگناہ کرتاتھا اور آج تُواس کے اندر نادم وشرمندہ ہے ۔''

    پھر جب اس کی قبرپر مٹی ڈال دی جاتی ہے اور اس کے اہل وعیال دوست واحباب اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو پانچو اں فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے پکار کرکہتاہے:'' اے ابن آدم ! وہ لوگ تجھے دفن کر کے چلے گئے ،اگر وہ تیرے پاس ٹھہربھی جاتے تو تجھے کوئی فائد ہ نہ پہنچا سکتے ،تُونے مال جمع کیا او راسے غیرو ں کے لئے چھوڑدیا آج یا تو تجھے جنت کے عالی باغات کی طرف پھیرا جائے گا یا بھڑ کنے والی آگ میں داخل کیا جائے گا۔''آنسوؤں کا دریا ص 92 تا 94

میرے بابا جان






اللہ عزوجل نے انسان کو عظیم الشان انعامات سے نوازا ہے، بعض  انعامات ابر کرم ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم سہارا بھی ہوتے ہیں ،ایسے انعامات میں سے ایک انعام ،جو وجود انسانی کا سبب بھی ہے، جس کے حقوق دین اسلام میں بکثرت بیان کئے گئے ہیں ،اور اس کرم خداوندی کا نام ہے؛باپ؛
اللہ تعالٰی نے باپ کے دل میں بچوں  کے لیے جو پیار و محبت کے جذبات رکھیں ہیں اس کی وسعتوں کی پیمائش بہت مشکل ہے،ایک بہت بڑا سایہ دارشجر  کسی کو وہ سایہ فراہم نہیں کر سکتا جو ایک باپ اپنی اولاد کو فراہم کرتا  ہے۔
کسی بہت بڑے محل میں بھی انسان غموں اور دکھوں کی دھوپ سے اس قدر محفوظ نہیں رہ سکتا  جس قدر وہ اپنے باپ کے سایہ رحمت میں مصیبتوں اور مشکلات سے  محفوظ رہ سکتا ہے
باپ کی محبت, شفقت اور اس کی سختی اولاد کے لیے ایک رہنما استاد کی حیثیت رکھتی ہے اس کی ڈانٹ  میں بھی بچوں کے لیے بہت بڑی بھلائی  پوشیدہ  ہوتی ہے
اللہ عزوجل نے والد کی عظمت کو  اس طرح بیان  فرمایا کے جہاں اپنے شکر ادا کرنے کا حکم دیا وہیں  والدین کا شکر بجا لانے کا بھی حکم  ارشاد فرمایا :اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوٰلِدَیۡکَ"
میرا  اور اپنے ماں باپ کا شکر یہ ادا کرو)سورہ لقمان،پارہ21،آیت 14)
دوسرے مقام  پر جہاں اپنی عبادت  کرنے کا حکم دیا وہیں  والدین کے ساتھ  اچھے سلوک کا بھی تاکیدی حکم دیا
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالْوٰلِدَیۡنِ اِحْسٰنًا ؕ
ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو( سورہ بنی اسرائیل ،پارہ 15،آیت 23)
اسی طرح سرکار ﷺ نے بھی مختلف  مقامات پر والد کی عظمت  کو بیان کیا ہے
حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے
''سنن الترمذي'' ، ج۳، ص۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷۔
ایک اور مقام پر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، تیری مرضی ہے،اسکی حفاظت کر یا اسے چھوڑ دے۔ صحیح ابن حبان ، ۱/۳۲۶،الحدیث ۴۲۶
اولاد کو چاہیے کے وہ والدین کی خوب خدمت کرے ان کا ہر طرح خیال رکھے انکے ہر جائز حکم کو پورا کرے اگر ان کی کوئی بات ناگوار گزر ےتو صبر کرے ان شاء اللہ عزوجل جو اولاد ایسا کرے گی دین ودنیا میں کامیاب ہوگی.جبکہ ایسا نہ کرنا دنیاوآخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی
حدیث مبارک میں ہے : اپنے والدین سے حسن سلوک کرو، تمہاری اولاد تم سے حسن سلوک کرے گی۔
المعجم الاوسط، ۱/۲۸۵، الحدیث ۱۰۰۲
تم اپنے والد کے ساتھ نیک سلوک کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے گی اگر تم اپنے والدین کو بھول جاؤ گے توتمہاری اولاد تمہیں بھول جائے گی۔
اے اللہ عزوجل ہمیں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا بنا اورجن کے والدین یا والدین میں سے کوئی ایک  فوت ہوگئے  ہیں ان کی مغفرت فرمایا۔آمین

برائی کو روکنا ضروری ہے


مفتی محمد حسان رضا عطاری مدنی
رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:مَنْ رَاٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِيْمَانِ یعنی جو تم میں سے کوئی بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے بَدَل دے اور اگر وہ اِس کی قوّت نہیں رکھتا تو اپنی زَبان سے (روک دے) پھر اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل سے (بُرا جانے) اور یہ سب سے کمزور ایمان کادَرَجہ ہے۔
(مسلم،ص 48، حدیث: 177(
بُرائی سے روکنے اور نیکی کی دعوت کی ہر شخص کو اُس کی طاقت کے مطابق ذِمَّہ داری دی گئی ہے۔لہٰذا وہ طَبَقَہ جسے لوگوں پر غَلَبہ اور تَسَلُّط حاصل ہے،جیسے حاکِمِ اسلام کو عام لوگوں پر، والِدَین کو اپنی اَولاد پر، اَساتِذہ کو اپنے طُلَبا پر، اِن کے لئے لازم ہے کہ اگر یہ اپنے کسی ماتَحت کو بُرائی میں مبتلا دیکھیں تو شریعت کی مُقَرَّر کردہ حد میں رہتے ہوئے سزا دے کر بھی  ان کو بُرائی سے روکیں۔ اور وہ عُلَمائے کرام اور مُبَلِّغینِ اِسلام جو لوگوں پر غَلَبہ نہیں رکھتے وہ مختلف ذَرائع جیسے اِجْتِماع اور جُمُعہ وغیرہ میں اپنے بَیان کے ذریعے اور کُتُب اور خُطُوط وغیرہ تَحریر  کے ذریعے لوگوں کو بُرائی سے روکیں، بلکہ حکیمُ الاُمَّت مفتی اَحمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی  نے شُعَرَا کا اپنی نظموں کے ذریعے بُرائی کا قَلْع قَمع کرنا  بھی  زَبان وتَحریر کے ذریعے بُرائی سے روکنے میں شامل کیا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح،ج6، ص503، ملخصاً(
اور وہ عام لوگ جو زَبان سے بھی بُرائی کو روکنے کی قوّت نہیں رکھتے  تو وہ بُرائی کو دل سے بُرا جانیں، اگرچہ یہ ایمان کا کمزور ترین دَرَجہ ہے کیونکہ کوشش کر کے زَبان سے روکنا چاہئے، لیکن جب ایسا شخص بُرائی کو دل سے بُرا سمجھے گا تو یقیناً خود بُرائی کے قریب نہیں جائے گا، نتیجہ یہ نکلے گا کہ مُعَاشرے کے بَکَثْرت اَفراد خود بخود راہِ راست پر آجائیں گے۔
یہ یاد رہے کہ بعض صورتوں میں نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ صَدرُ الشَّریعہ مولانا مفتی امجد علی اَعْظَمِی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی ارشاد فرماتے ہیں: اگر غالب گُمان یہ ہے کہ یہ اُن سے کہے گا تو وہ اِس کی بات مان لیں گے اور بُری بات سے باز آجائیں گے تو اَمْر بِالْمَعْرُوْف واجب ہے اُس کو باز رہنا جائز نہیں۔
( بہارِ شریعت،حصه 16، ص 615(
حافظ اِبنِ مُلَقِّن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بُرائی سے روکنا فرضِ کِفایہ ارشاد فرمایا ہے۔(المعین علی تفھم الاربعین، ص 394) البتہ دیگر شَارِحِینِ حدیث نے یہ بھی اِرشاد فرمایا کہ دل سے بُرائی کا انکار کرنا فرضِ عین ہے یعنی ضروری ہے کہ ہر ایک بُرائی کو بُرا سمجھے۔(الفتح المبین، ص 547، ملخصاً(

امام ابو داؤد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سَیِّدُنا عُرْس بن عَمِیْرَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب کسی مقام پر بُرائی ہو رہی ہو اور وہاں موجود شخص اس کو ناپسند کرتا ہے (اور ایک روایت میں ہے: اس کا انکار کرتا ہے) تو وہ ایسا ہے گویا وہاں موجود ہی نہیں اور جو وہاں موجود نہیں مگر اس بُرائی پر راضی ہے تو وہ ایسا ہے جیسا وہاں حاضر ہے۔(ابو داؤد،ج4، ص166، حدیث: 4354) اس موضوع پر مزید تفصیل کے لئے امیرِ اَہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیفِ لطیف ”نیکی کی دعوت“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مُطالَعہ بے حد مُفید ہے۔