شب برات کا حلوا:۔شب برات کا حلوا پکانا نہ تو فرض و سنت ہے نہ حرام و ناجائز
بلکہ حق بات یہ ہے کہ شب برات میں دوسرے تمام کھانوں کی طرح حلوا پکانا بھی ایک
مباح اور جائز کام ہے اور اگر اس نیک نیتی کے ساتھ ہو کہ ایک عمدہ اور لذیذ کھانا فقراء
ومساکین اور اپنے اہل و عیال کو کھلا کر ثواب حاصل کرے تو یہ ثواب کا کام بھی ہے۔ درحقیقت
اس رات میں حلوے کا دستوریوں نکل پڑا کہ یہ مبارک رات صدقہ وخیرات اور ایصال ثواب
و صلہ رحمی کی خاص رات ہے۔ لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس رات میں کوئی
مرغوب اور لذیذ کھانا پکایا جائے۔ بعض عالموں کی نظر بخاری شریف کی اس حدیث پر پڑی
کہ۔ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل۔ (صحیح
البخاری، کتاب الاطعمۃ، باب الحلواء والعسل، رقم ۵۴۳۱،ج۳،ص۵۳۶) یعنی'' رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم حلوا
(شیرینی) اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔''
لہٰذا ان علمائے کرام نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس
رات میں حلوا پکایا۔ پھر رفتہ رفتہ عوام میں بھی اس کا چرچا اور رواج ہوگیا۔
چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قبلہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات میں ہے کہ
ہندوستان میں شب برات کو روٹی اور حلوا پر فاتحہ دلانے کا دستور ہے۔ اور سمر قند و
بخارا میں ''قتلما'' پر جو ایک میٹھا کھانا ہے۔ الغرض شب برات کا حلوا ہو یا عید
کی سویاں' محرم کا کھچڑا ہو یا ملیدہ'
محض ایک رسم و رواج کے طریقہ پر لوگ پکاتے کھاتے
اورکھلاتے ہیں۔ کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ فرض یا سنت ہیں۔ اس لئے اس کو
ناجائز کہنا درست نہیں۔ یاد رکھو کسی حلال کو حرام ٹھہرانااﷲ پر جھوٹی تہمت لگانا
ہے جو ایک بدترین گناہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ قُلْ اَرَءَیۡتُمۡ مَّاۤ اَنۡزَلَ اللہُ لَكُمۡ مِّنۡ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمۡ مِّنْہُ حَرَامًا
وَّحَلٰلًا ؕ قُلْ آٰللہُ اَذِنَ
لَكُمْ اَمْ عَلَی اللہِ تَفْتَرُوۡنَ ﴿59﴾ یعنی کہہ دو بھلا
بتاؤ تو وہ جو اﷲ نے تمہارے لئے رزق اتارا۔ اس میں تم نے اپنی طرف سے کچھ حرام کچھ
حلال ٹھہرالیا۔ (اے پیغمبر) فرمادو کیا اﷲ نے اس کا تمہیں حکم دیا ہے' یا اﷲ پر تم
لوگ تہمت لگاتے ہو؟
(پ 11 ،یونس:59)