اِہل دمشق میں سے ایک شخص تھاجس کا نام
ابوعبدالرب تھااور وہ پورے دمشق میں سب سے زیادہ مالدار تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر
نکلاتو اسے ایک نہر کے کنارے کسی چراگاہ میں رات ہوگئی چنانچہ اس نے وہیں پڑا ؤ
ڈال دیا۔ اسے چراگاہ کی ایک جانب سے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی کثرت سے اللہ عزوجل
کی تعریف کررہاتھا ۔وہ شخص اس آواز کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چٹا ئی
میں لپٹا ہوا ہے۔ اس نے اس شخص کوسلام کیا اور اس سے پوچھا کہ ''تم کون ہو؟'' تو
اس شخص نے کہا: ''ایک مسلمان ہوں۔'' اس دمشقی نے اس سے پوچھا :''یہ کیا حالت بنارکھی
ہے ۔'' تو اس نے جواب دیا :''یہ نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔''
دمشقی نے کہا:''تم چٹائی میں لپٹے ہوئے ہو یہ کونسی نعمت ہے؟'' اس نے کہا :''اللہ
تعالیٰ نے مجھے پیدا فرمایا تو میری تخلیق کواچھا کیا اور میری پیدائش وپرورش کو
اسلام میں رکھا اور میرے اعضاء کو تندرست کیا اور جن چیزوں کا ذکر مجھے ناپسندہے
انہیں چھپایا تو اس سے بڑھ کر نعمت میں کون ہوگا ۔۔۔؟''
وہ دمشقی کہتا ہے کہ میں نے ان سے کہا:
''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ میرے ساتھ چلنا پسند فرمائیں گے، ہم یہیں آپ کے
برابر نہر کے کنارے ٹھہرے ہوئے ہیں ؟''اس شخص نے کہا : ''وہ کیوں ؟'' میں نے کہا
:''اس لئے کہ آپ کچھ کھانا وغیرہ کھالیں اور ہم آپ کی خدمت میں کچھ ایسی چیز یں
پیش کریں جو آپ کو چٹائی میں لپٹنے سے بے نیاز کردیں۔'' اس نے کہا :''مجھے ان چیز
وں کی حاجت نہیں۔'' یہ کہہ کر اس نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کردیا اور میں واپس
لوٹ آیا ۔
(اس کی باتیں سننے کے بعد)میرے نزدیک اپنے آپ کی
کوئی حیثیت نہ رہی ۔ میں نے (اپنے دل میں)کہا :'' میں نے دمشق میں اپنے سے زیادہ
مالدار کوئی نہیں دیکھا پھر بھی میں مزید کی تلاش میں ہوں۔''پھر میں نے بارگاہِ
خداوندی عزوجل میں عرض کی : ''اے اللہ عزوجل ! میں تیری بارگاہ میں اپنے اس حال سے
تو بہ کرتا ہوں ۔''یوں میں نے توبہ کرلی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔
جب صبح ہوئی تولوگوں نے سفر کی تیاری شروع
کی اور میری سواری میرے پاس لے آئے تومیں نے یہ سوچ کراس کا رخ دمشق کی جانب پھیر
دیا کہ اگر میں دوبارہ تجارت میں مصروف ہوگیا تومیں تو بہ میں سچا نہیں۔ میری قوم
نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تومیں نے انہیں اپنی تو بہ کے بارے میں بتادیا ،انہوں
نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے اصرار کیا مگر میں نے انکار کردیا۔
راوی کہتے ہیں کہ دمشق پہنچنے کے بعداس شخص
نے اپنا مال راہِ خدا عزوجل میں صدقہ کردیا اور عبادت میں مصروف ہوگیا۔ جب اس کا
انتقال ہوا تو اس کے پاس کفن کی قیمت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین
بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم
(آنسؤوں کا دریا ، ص :211 ، مدینہ لائبریری ، دعوت
اسلامی مختصرا)
)منجانب
: سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی(