حضرتِ سیِّدُنا اَشْعَث بن قَیس اور حضرتِ
سیِّدُنا جَرِیربن عبداللّٰہ بَجَلِی رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہما حضرتِ
سیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ
سے ملاقات کے لئے نکلے توانہیں مدائن کے گرد و نواح میں ایک جھونپڑی میں پایا ۔
حاضرہوکر سلام عرض کیا ،کچھ دیر گفتگو کے بعد
حضرت ِسیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے
استفسار فرمایا : ’’تم کس کام سے آئے ہو ؟ ‘‘
انہوں نے عرض کی : ہم ملکِ شام سے آپ کےبھائی
کے پاس سے آئے ہیں ۔ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے
پھر پوچھا : وہ کون ؟ عرض کی : حضرت ِ ابودَرْدَاء رضی اللّٰہ
تعالٰی عنہ ۔ فرمایا : انہوں نے میرے لئے جو تحفہ بھیجاہے وہ کہاں ہے؟ عرض کی :
انہوں نے آپ کے لئے کوئی تحفہ نہیں بھیجا ۔
فرمایا : اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ
سے ڈرو اور امانت ادا کرو ! جو شخص بھی ان کے پاس سے آتا ہے وہ میرے لئے
ان کا تحفہ لاتا ہے ۔ بولے : آپ ہم پر
تہمت نہ لگائیں ! اگر آپ کو کوئی ضرورت ہے تو ہم اسے اپنے مال سے پورا کئے دیتے
ہیں ۔
آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے
فرمایا : مجھے تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ، مجھے تووہ تحفہ چاہیے جو انہوں نے
تمہارے ہاتھ بھیجا ہے ۔ انہوں نے عرض کی :
اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! ا نہوں
نے ہمیں کوئی چیز دے کر نہیں بھیجا سوائے اس کے کہ انہوں نے فرمایا : تم میں ایک
ایسا شخص موجود ہے کہ جب وہ رسولُ اللہﷺ کے ہمراہ ہوتا تھا تو آپ کو کسی دوسرے کی حاجت نہیں ہوتی تھی ،
لہٰذا جب تم اُن کے پاس جاؤ تو میرا سلام
کہنا ۔
حضرت
ِسیِّدُناسلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے
فرمایا : یہی تو وہ تحفہ ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کر رہا تھا ، اور ایک مسلمان
کے لئے سلام سے افضل کون ساتحفہ ہوسکتاہے ! جواچھی دعاہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّکی
طرف سے برکت والی اور پاکیزہ ہے ۔
(المعجم
الکبیر ، ۶/ ۲۱۹ ،حدیث : ۶۰۵۸)
(