مختصر واقِعه مِعْرَاج




 واقعہ معراج بعثت کے گيارہويں سال اور ہجرت سے دو سال پہلے، 27 رَجَبُ المرجَّب، پير شريف کي سُہاني اور نُور بھري رات  پیش آیا

حضور ﷺ  اپني چچا زاد بہن حضرتِ اُمِّ ہاني رَضِيَ اللہُ تَعَالي عَنہَا کے گھر آرام فرمارہے تھےکہ حضرتِ جبرائيل علیہ السلام حاضِر ہوئے اور آپ ﷺ کو حضرتِ اُمِّ ہاني رَضِيَ اللہُ تَعَالي عَنہَا کے گھر سے مسجِدِ حرام ميں  لے آئے  اور آپ کا  شَقِّ صَدْر فرمايا ، حضرتِ جبرائيل علیہ السلام نے پيارے آقا ﷺکے قلبِ اطہر کو آبِ زَم زَم سے غسل ديا اور پھر ايمان وحکمت سے بھر کر واپس اُس کي جگہ رکھ ديا

بُراق کي سواري

اس کے بعد آپ ﷺ کي بارگاہِ اقدس ميں سواري کے لئے بُراق پيش کيا گيا،پھر سيِّدِ عالَمﷺ بُراق پر سوار ہوئے اور بيت المقدس کي طرف روانہ ہوئے

دورانِ سفرآپ ﷺ نے تين مقامات پر نماز ادا فرمائي

01: مدينہ شريف جس کي طرف  آپ ﷺ ہجرت فرمائيں گے؟
02: طُورِ سِيْنا جہاں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے حضرتِ موسي عَلَيْہِ السلام کو ہَم کلامي کا شَرَف عطا فرمايا تھا
03: بَيْتِ لَحْم : جہاں حضرتِ عيسي عَلَيْہِ السَّلَام کي وِلادت ہوئي تھي

بيت المقدس آمد اورانبيائے کِرَام عَلَيْہِمُ السلام کي امامت

آپ ﷺ راستے ميں  عجائباتِ قدرت کوديکھتے ہوئے، اس مقدس شہر ميں تشريف لے آئے جہاں مسجدِ اقصي واقِع ہےاور پھر مسجد اقصي  ميں انبيائے کِرَام عَلَيْہِمُ السلام کي امامت فرمائي

آسمانوں کي طرف سفر

بيت المقدس کے مُعَامَلات سے فارِغ ہونے کے بعد پيارے پيارے آقا، ميٹھے ميٹھے مصطفےﷺ نے آسمان کي طرف سفر شروع فرمايا

 پہلے آسمان پر حضرتِ آدم عَلَيْہِ السلام سے  ملاقات ہوئي ؟

دوسرے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ يحيي  اور حضرتِ عيسي عَلَيْہِمَا السلام سے  ملاقات ہوئي ؟

تيسرے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ یوسف عَلَيْہ السلام سے  ملاقات ہوئي

چوتھے آسمان : پر آپ ﷺ کي حضرتِ اِدْرِيس عَلَيْہ السلام سے  ملاقات ہوئي

پانچويں آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ ہارون عَلَيْہ السلام سے  ملاقات ہوئي

چھٹے آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ موسي عَلَيْہِمُ السلام سے  ملاقات ہوئي

ساتويں آسمان: پر آپ ﷺ کي حضرتِ ابراہيم خَلِيْلُ اللہ عَلَيْہِمُ السلام سے  ملاقات ہوئي

سدرۃ المنتہیٰ

ساتویں آسمان پر حضرتِ ابراہیم خَلِیْلُ اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمانے کے بعد سیِّدِ والا تبار، دوعالَم کے تاجدار ﷺ سِدْرَۃُ المنتہیٰ کے پاس تشریف لائے۔یہ ایک نورانی بیری کادرخت ہے، جس کی جڑ چھٹے آسمان پر اور شاخیں ساتویں آسمان کے اُوپر ہیں

مقامِ مستویٰ

جب پیارے آقا، میٹھے مصطفےٰ ﷺ سِدْرَۃُ المنتہیٰ سے آگے بڑھے تو حضرتِ جبرائیل علیہ السلام وہیں ٹھہر گئے اور آگے جانے سے مَعْذِرَت خواہ ہوئے۔پھر آپ ﷺ آگے بڑھے اور بلندی کی طرف سفر فرماتے ہوئے ایک مقام پر تشریف لائے جسے مستویٰ کہا جاتا ہے۔

عرشِ عُلیٰ سے بھی اُوپر

پھر مستویٰ سے آگے بڑھے تو عرش آیا، آپ ﷺ اس سے بھی اُوپر تشریف لائے اور پھر وہاں پہنچے جہاں خُود ” کہاں“ اور ” کب“ بھی ختم ہو چکے تھے کیونکہ یہ الفاظ جگہ اور زمانے کے لئے بولے جاتے ہیں اور جہاں ہمارے حُضُورِ انور ﷺ رونق اَفْرَوز ہوئے وہاں جگہ تھی نہ  زمانہ۔ اسی وجہ سے اسے لامکاں کہا جاتا ہے۔

یہاں اللہ رَبُّ الْعِزّت عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو وہ قربِ خاص عطا فرمایا کہ نہ کسی کو مِلا نہ ملے۔

دیدارِ الٰہی اور ہَم کَلامی کا شَرَف

آپﷺ نے بیداری کی حالت میں سر کی آنکھوں سے اپنے پیارے ربّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کا دیدار کیا کہ پَردہ تھا نہ کوئی حجاب، زمانہ تھا نہ کوئی مکان، فِرِشتہ تھا نہ کوئی اِنسان، اور بےواسطہ کلام کا شَرَف بھی حاصِل کیا۔

پچاس سے پانچ نمازیں

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اپنے محبوب ﷺ کو ہر دِن رات 50 نمازوں کا تحفہ (بھی) عَطا فرمایا۔ (پھر اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات اور پھر دوبار رب کی بارگاہ میں جانا اور نمازوں کا 50 سے 5 ہوجانے کا واقعہ پیش آیا)

جنت کی سیر  اور جہنّم کا مُعَایَنہ

پھر آپ ﷺکو جنت میں لایا گیا اور آپ نے جنت کی سیر فرمائی اور اس میں وہ نعمتیں دیکھیں جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دِل میں اس کا خَیَال گزرا، جنت کی سیر کے بعد آپ ﷺکو جہنّم کا مُعَاینہ کرایا گیا، وہ اس طرح  کہ آپﷺجنت میں ہی موجود تھے اور جہنّم پر سے پَردہ ہٹا دیا گیا جس سے آپ ﷺنے اُسے مُلاحظہ فرما لیا۔

واپسی کا سفر

اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی قدرت ہے کہ اس نے رات کے مختصر سے حصے میں اپنے پیارے محبوب علیہ السلام کو بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں نیز عرش وکرسی سے بھی اُوپر لامکاں کی سیر کرائی، بعض نادان جو ہر بات کو عقل کے ترازو پر تولنے کے عادِی ہوتے ہیں ایسے مُعَاملات میں بھی اپنی ناقص عقل کو دخل دیتے ہیں

یاد رکھئے! اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  قادِرِ مطلق ہے، وہ ہر شے پر قادِر ہے۔ یہ زمین وآسمان، یہ پہاڑ وسمندر، یہ چاند وسورج، یہ فاصلے اور یہ سفر کی منزلیں سب کچھ اُسی کا پیدا کیا ہوا ہے، وہ جس کے لئے چاہے فاصلے سمیٹ دے اور جس کے لئے چاہے بڑھا دے، عقلیں اس کا اِحَاطہ کرنے سے قاصِر ہیں

صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ کی تصدیق

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب سرکارِ ﷺ نے لوگوں کو واقعہ مِعْرَاج کی خبر دی تو عقل پرست کُفّار ومُشْرِکین کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ کوئی شخص رات کے مختصر سے حصّے میں بیت المقدس کی سیر کیسے کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اُنہوں آپ ﷺکی تکذیب کی آپ ﷺ کے سفرِ مِعْرَاج کا اِعْلان فرمانے پر بعض لوگ دوڑتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں جو آپ کے دوست (حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم)نے کہی، تو بغیر کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے فوراً پیارے آقا ﷺ کی تصدیق کر دی، اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ صِدِّیق مشہور ہو گئے۔

(خلاصہ از فیضان معراج)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

مالدار تاجر سب خیرات کر کے نئے شہر میں کیوں رہنے لگا ؟



     اِہل دمشق میں سے ایک شخص تھاجس کا نام ابوعبدالرب تھااور وہ پورے دمشق میں سب سے زیادہ مالدار تھا۔ ایک مرتبہ وہ سفر پر نکلاتو اسے ایک نہر کے کنارے کسی چراگاہ میں رات ہوگئی چنانچہ اس نے وہیں پڑا ؤ ڈال دیا۔ اسے چراگاہ کی ایک جانب سے ایک آواز سنائی دی کہ کوئی کثرت سے اللہ عزوجل کی تعریف کررہاتھا ۔وہ شخص اس آواز کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چٹا ئی میں لپٹا ہوا ہے۔ اس نے اس شخص کوسلام کیا اور اس سے پوچھا کہ ''تم کون ہو؟'' تو اس شخص نے کہا: ''ایک مسلمان ہوں۔'' اس دمشقی نے اس سے پوچھا :''یہ کیا حالت بنارکھی ہے ۔'' تو اس نے جواب دیا :''یہ نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا مجھ پر واجب ہے۔'' دمشقی نے کہا:''تم چٹائی میں لپٹے ہوئے ہو یہ کونسی نعمت ہے؟'' اس نے کہا :''اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا فرمایا تو میری تخلیق کواچھا کیا اور میری پیدائش وپرورش کو اسلام میں رکھا اور میرے اعضاء کو تندرست کیا اور جن چیزوں کا ذکر مجھے ناپسندہے انہیں چھپایا تو اس سے بڑھ کر نعمت میں کون ہوگا  ۔۔۔؟''
    
وہ دمشقی کہتا ہے کہ میں نے ان سے کہا: ''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، آپ میرے ساتھ چلنا پسند فرمائیں گے، ہم یہیں آپ کے برابر نہر کے کنارے ٹھہرے ہوئے ہیں ؟''اس شخص نے کہا : ''وہ کیوں ؟'' میں نے کہا :''اس لئے کہ آپ کچھ کھانا وغیرہ کھالیں اور ہم آپ کی خدمت میں کچھ ایسی چیز یں پیش کریں جو آپ کو چٹائی میں لپٹنے سے بے نیاز کردیں۔'' اس نے کہا :''مجھے ان چیز وں کی حاجت نہیں۔'' یہ کہہ کر اس نے میرے ساتھ چلنے سے انکار کردیا اور میں واپس لوٹ آیا ۔

 (اس کی باتیں سننے کے بعد)میرے نزدیک اپنے آپ کی کوئی حیثیت نہ رہی ۔ میں نے (اپنے دل میں)کہا :'' میں نے دمشق میں اپنے سے زیادہ مالدار کوئی نہیں دیکھا پھر بھی میں مزید کی تلاش میں ہوں۔''پھر میں نے بارگاہِ خداوندی عزوجل میں عرض کی : ''اے اللہ عزوجل ! میں تیری بارگاہ میں اپنے اس حال سے تو بہ کرتا ہوں ۔''یوں میں نے توبہ کرلی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔
  
   جب صبح ہوئی تولوگوں نے سفر کی تیاری شروع کی اور میری سواری میرے پاس لے آئے تومیں نے یہ سوچ کراس کا رخ دمشق کی جانب پھیر دیا کہ اگر میں دوبارہ تجارت میں مصروف ہوگیا تومیں تو بہ میں سچا نہیں۔ میری قوم نے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تومیں نے انہیں اپنی تو بہ کے بارے میں بتادیا ،انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لئے اصرار کیا مگر میں نے انکار کردیا۔
   
راوی کہتے ہیں کہ دمشق پہنچنے کے بعداس شخص نے اپنا مال راہِ خدا عزوجل میں صدقہ کردیا اور عبادت میں مصروف ہوگیا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے پاس کفن کی قیمت کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم

(آنسؤوں کا دریا ، ص :211 ، مدینہ لائبریری ، دعوت اسلامی مختصرا)

)منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی(



انمول تحفہ



             
حضرتِ سیِّدُنا اَشْعَث بن قَیس اور حضرتِ سیِّدُنا جَرِیربن عبداللّٰہ بَجَلِی رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہما حضرتِ سیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ملاقات کے لئے نکلے توانہیں مدائن کے گرد و نواح میں ایک جھونپڑی میں پایا ۔

 حاضرہوکر سلام عرض کیا ،کچھ دیر گفتگو کے بعد حضرت ِسیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے استفسار فرمایا : ’’تم کس کام سے آئے ہو ؟ ‘‘

 انہوں نے عرض کی : ہم ملکِ شام سے آپ کےبھائی کے پاس سے آئے ہیں ۔ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے پھر پوچھا : وہ کون ؟ عرض کی : حضرت ِ ابودَرْدَاء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔ فرمایا : انہوں نے میرے لئے جو تحفہ بھیجاہے وہ کہاں ہے؟ عرض کی : انہوں نے آپ کے لئے کوئی تحفہ نہیں بھیجا ۔

 فرمایا : اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور امانت ادا کرو ! جو شخص بھی ان کے پاس سے آتا ہے وہ میرے لئے ان کا تحفہ لاتا ہے ۔  بولے : آپ ہم پر تہمت نہ لگائیں ! اگر آپ کو کوئی ضرورت ہے تو ہم اسے اپنے مال سے پورا کئے دیتے ہیں ۔

 آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : مجھے تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ، مجھے تووہ تحفہ چاہیے جو انہوں نے تمہارے ہاتھ بھیجا ہے ۔  انہوں نے عرض کی :  اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! ا نہوں نے ہمیں کوئی چیز دے کر نہیں بھیجا سوائے اس کے کہ انہوں نے فرمایا : تم میں ایک ایسا شخص موجود ہے کہ جب وہ رسولُ اللہ کے ہمراہ ہوتا تھا تو آپ  کو کسی دوسرے کی حاجت نہیں ہوتی تھی ، لہٰذا جب تم اُن کے پاس جاؤ تو میرا سلام  کہنا ۔

حضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : یہی تو وہ تحفہ ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کر رہا تھا ، اور ایک مسلمان کے لئے سلام سے افضل کون ساتحفہ ہوسکتاہے ! جواچھی دعاہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے برکت والی اور پاکیزہ ہے ۔


(المعجم الکبیر ، ۶/ ۲۱۹ ،حدیث : ۶۰۵۸)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

آپ ﷺ تین دن تک ایک ہی جگہ کیوں ٹھہرے رہے ؟





وعدہ کی پابندی اخلاق کی ایک بہت ہی اہم اور نہایت ہی ہری بھری شاخ ہے۔ اس خصوصیت میں بھی رسولِ عربی صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم کا خُلق عظیم ترین ہے ۔ چنانچہ

حضرتِ سیدنا ابوالحَمساء رضی اللّٰہ تعالٰی  عنہ کہتے ہیں کہ اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے حضورصلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم سے کچھ سامان خریدا ،اسی سلسلے میں آپ کی کچھ رقم میرے ذمے باقی رہ گئی، میں نے آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم سے کہا : آپ یہیں ٹھہریئے میں ابھی ابھی گھرسے رقم لا کر اسی جگہ پر آپ  کو دیتا ہوں ۔

حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسی جگہ ٹھہرے رہنے کا وعدہ فرما لیا مگر میں گھر آکر اپنا وعدہ بھول گیا پھر تین دن کے بعد مجھے جب خیال آیا تو رقم لے کراس جگہ پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضورصلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم اُسی جگہ ٹھہرے ہوئے میرا انتظار فرما رہے ہیں ۔

 مجھے دیکھ کر آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشانی پر بل نہیں آیا اوراس کے سوا آپ صلی اللّٰہ تعالٰی  علیہ واٰلہٖ وسلم نے اور کچھ نہیں فرمایا کہ :  اے نوجوان !تم نے تو مجھے مشقت میں ڈال دیا کیونکہ میں اپنے وعدے کے مطابق تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہاہوں ۔
(الشفا،الباب الثانی، فصل واما خلقہ۔۔۔الخ ،ص۱۲۶،جزء ۱)


(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)

اچھا خاصا انسان بندر بن گیا




حضرت امام مستغفری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ثقات (مستند راویوں ) سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ تین آدمی ایک ساتھ یمن جارہے تھے ہمارا ایک ساتھی جو کوفی تھا وہ حضرت ابوبکر صدیق وحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں بدزبانی کر رہا تھا ، ہم لوگ اس کو بار بار منع کرتے تھے مگر وہ اپنی اس حرکت سے باز نہیں آتا تھا .
 جب ہم لوگ یمن کے قریب پہنچ گئے اور ہم نے اس کو نماز فجر کے لیے جگایا ،تو وہ کہنے لگا کہ میں نے ابھی ابھی یہ خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ عزوجل و ﷺ میرے سرہانے تشریف فرما ہوئے اورمجھے فرمایا کہ ’’اے فاسق!خداوند تعالیٰ نے تجھ کو ذلیل وخوار فرمادیا اورتو اسی منزل میں مسخ ہوجائے گا۔‘‘

اس کے بعد فوراً ہی اس کے دونوں پاؤں بندر جیسے ہوگئے اورتھوڑی دیر میں اس کی صورت بالکل ہی بندرجیسی ہوگئی ۔ ہم لوگوں نے نماز فجر کے بعد اس کو پکڑ کر اونٹ کے پالان کے اوپر رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا اوروہاں سے روانہ ہوئے ۔
غروب آفتاب کے وقت جب ہم ایک جنگل میں پہنچے تو چند بندروہاں جمع تھے۔ جب اس نے بندروں کے غول کو دیکھا تو رسی تڑوا کر یہ اونٹ کے پالان سے کود پڑا اوربندروں کے غول میں شامل ہوگیا۔

 ہم لوگ حیران ہوکر تھوڑی دیر وہاں ٹھہر گئے تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ بندروں کا غول اس کے ساتھ کس طرح پیش آتاہے تو ہم نے یہ دیکھا کہ یہ بندروں کے پاس بیٹھا ہوا ہم لوگوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھتا تھا اوراس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ گھڑی بھر کے بعد جب سب بندروہاں سے دوسری طرف جانے لگے تویہ بھی ان بندروں کے ساتھ چلاگیا۔

(شواہد النبوۃ، رکن سادس دربیان شواھد ودلایلی...الخ، ص۲۰۳)

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی) 


ایک شخص کا ایسا عمل کہ نشہ کرنے والا سدھر گیا



        حضرت سیِّدُنامحمد بن زَکَریا غَلابی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادی فرماتے ہیں : میں ایک رات حضرت سیِّدُناابن عائشہ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہکے پاس حاضر ہوا ہم نمازِمغرب  کے بعد مسجد سے نکلے ، اچانک نشے میں مدہوش ایک نوجوان آپ کے راستے میں آیا جو ایک عورت کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ رہا تھا ، عورت نے مدد کے لئے پکارا تو لوگ اُس نوجوان کو مارنے کے لئے جمع ہو گئے ۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عائشہ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ  نے اُس نوجوان کو دیکھ کرپہچان لیا اور لوگوں سے کہا : میرے بھتیجے کو چھوڑ دو ! پھر آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ  نے فرمایا: اے میرے بھتیجے ! میرے پاس آؤ !تو وہ نوجوان شرمندہ ہونے لگا ، تب آپ نے آگے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا یا پھر اُس سے فرمایا : میرے ساتھ چلو ! چنانچہ وہ آپ کے ساتھ آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کے گھر پہنچ گیا ۔
 آپ نے اپنے ایک غلام سے فرمایا : آج رات اسے اپنے پاس سلاؤ ! ، جب اس کا نشہ دور ہو تو جو کچھ اس نے کیا ہے وہ اسے بتا دینااور اسے میرے پاس لانے سے پہلے جانے مت دینا ۔ چنانچہ جب اس کانشہ دورہوا تو خادِم نے اسے سارا ماجرا بیان کیا جس کی وجہ سے وہ بہت شرمندہ ہوا اور رونے لگا اور واپس جانے کا ارادہ کیا تو غلام نے کہا : حضرت کا حکم ہے کہ تم ان سے مل لو ۔
چنانچہ وہ اس نوجوان کو آپ کے پاس لے آیا ، آپ نے اُس نوجوان سےفرمایا : کیا تمہیں اپنے آپ سے شرم نہیں آئی ؟ اپنی شرافت سے حیا نہ آئی ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا والد کون ہے ؟ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ! اور جن کاموں میں لگے ہوئے ہو انہیں چھوڑ دو ۔
 وہ نوجوان اپنا سر جھکا کر رونے لگا پھر اس نے اپنا سر اٹھا کر کہا : میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے عہدکرتاہوں جس کے بارے میں قیامت کے دن مجھ سے سوال ہو گاکہ آیندہ کبھی میں نشہ نہیں پیوں گا اور نہ ہی کسی عورت پر دست درازی کروں گا اور میں ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔
 آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ  نے فرمایا : میرے قریب آؤ ۔ پھر آپ نے اُس کے سر پر بوسہ دے کر فرمایا : اے میرے بیٹے ! تو نے توبہ کر کے بہت اچھا کیا ۔ اس کے بعد وہ نوجوان آپ رحمۃُ اللّٰہ  تعالٰی علیہ  کی مجلسوں میں شریک ہونے لگا اور آپ سے حدیث شریف لکھنے لگا ۔ یہ  آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ  کی نرمی کی برکت تھی ۔
 پھر آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ  نے فرمایا : لوگ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں حالانکہ ان کا نیکی برائی بن جاتا ہے لہٰذا تم اپنے تمام اُمور میں نرمی کواختیار کروکہ اس سے تم اپنے مقاصد کو پا لو گے ۔
(احیاء علوم الدین ، کتاب الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر ،۲/۴۱۱)

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔۔۔ آمین۔

(  منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت ِ اسلامی)