تبرکات اور قرآن پاک
اللہ
تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کو حکایۃ ًبیان فرماتا ہے :
اِذْہَبُوۡا
بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلْقُوۡہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا ۚ
وَاۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾
ترجمہ
کنزالایمان: ميرا يہ کُرتا لے جاؤ اسے ميرے باپ کے منہ پر
ڈالو ان کی آنکھيں کھل جائيں گی اور اپنے سب گھر بھر کو ميرے پاس لے آؤ۔(پ۱۳، يوسف:۹۳)
تفسير:
ظاہر یہ ہے کہ اس قمیص سے مراد وہی کرتہ ہے جو آپ اس وقت پہنے ہوئے تھے ،اور اس
اضافت سے معلوم ہوتا ہے کہ کرتے میں اس لیے شفاء امراض کی تاثیر پیدا ہوئی ،کہ اسے
میرے جسم سے مس ہوگیا۔ مفسرین فرماتے ہیں یہ قمیص ابراہیم علیہ السلام کی تھی جو
منتقل ہوتی ہوئی آ پ تک پہنچی تھی ۔
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ یعقوب عليہ السلام روتے روتے نابينا ہو چکے
تھے ، ورنہ اب آنکھيں کھل جانے اور ان کے انکھيا را ہوجانے کی کيا وجہ۔
دوسرا يہ کہ بزرگوں کے تبرکات ، ان کے جسم کی چھوئی ہوئی چيزيں بيماريوں کی شفا،
دافع بلا مشکل کشا ہوتی ہيں، تو خود وہ حضرات يقينا دافع بلا و مشکل کشا ہيں۔ رب
تعالیٰ نے ايوب عليہ السلام سے فرمايا تھا ، اُرْکُضْ
بِرِجْلِکَ ۚ ہٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ﴿﴾ اپنا
پاؤں زمين پر رگڑو ،اس سے پانی کا چشمہ پھوٹے گا، اسے پيو اور غسل کرو، شفا ہوگی،(پ۲۳۔،صۤ:۴۲) مدينہ پاک کی مٹی خاکِ
شفا ہے کہ اسے حضور کے قدم سے مس نصيب ہوا۔ (تفسير
نورالعرفان)