Bukhar Kia He?



میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!زندگی میں عام طور پر جن امراض سے سبھی کو واسطہ پڑتا ہےان میں سےایک بخاربھی ہے۔
بخار کی حقیقت:سادہ لفظوں میں بخار کی تعریف یہ ہے کہ جسم کے درجۂ حرارت (Temperature) کابڑھ جانابخارکہلاتا ہے۔ جسم کا عمومی(Normal)درجۂ حرارت F98.6 یا 37 Cہے، درجۂ حرارت جب اس سے اوپر جاتا ہے تو بخار کی کیفیت شروع ہوجاتی ہے اور اگر 102سے اوپر چلا جائے تو تیز  بخار ہوتا ہے۔ 101یا 102 شدت کےتیزبخار میں بعض لوگوں بالخصوص بچوں کو جھٹکے آنے لگتے ہیں۔
بخار چیک کرنے کا طریقہ:بخار چیک (check)کرنےکا درست طریقہ یہ ہے کہ تھرمامیٹر کے ذریعے جسم کا درجۂ حرارت معلوم کیا جائے۔ عموماً تین قسم کے تھرما میٹر دستیاب ہوتے ہیں:(1) عام تھرمامیٹر جسے منہ میں  رکھا جاتا ہے۔ (2) Digital تھرمامیٹر جسے بغل میں رکھ کرجسم کا درجۂ حرارت معلوم کیاجاتا ہے۔ (3)تیسری قسم کے تھرمامیٹرمیں مختلف رنگوں کے ذریعے Temperature  کی نشاندہی ہوتی ہے ۔
بخار کا علاج:بخار کے علاج کے لئے ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے،  Self-Medication   یعنی خود ہی مرض کاتعین کر کے اس کے علاج کے لئے دوا کا استعمال ایک خطرناک عمل ہے،  جو حصولِ صحت کے بجائے بیماری  میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس پہنچنا مشکل ہو تو گھر میں تھرمامیٹر کے ذریعے Temperature چیک کرکے بخار کی سادہ دوا استعمال کی جاسکتی ہے لیکن یاد رکھیے!اس صورت میں دوااستعمال کرنے کا مقصد Temperature کو کم کرنا ہوتا ہے نہ کہ علاج کرنا۔وقتی طور پر دوا کا استعمال کرکے Temperature کو کم کرلیا جائے اور پھر بعد میں ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔ممکنہ صورت میں فون کے ذریعے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔
تیز بخار کم کرنے کا طریقہ:بخار کی شدت کم کرنے کاایک طریقہ یہ ہے کہ روئی یاکپڑے کو سادہ پانی سے گیلا کرکے جسم کےمختلف حصوں بازو، پیشانی، پیٹھ اور تلوؤں وغیرہ پر رکھیں۔ پانچ سے دس منٹ ایساکریں گے توTemperature کم ہوجائے گا۔
بخار میں غذا کا استعمال:بخارکی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی(Dehydration) ہوجاتی ہےلہٰذا ڈاکٹر کے مشورے سے مریض کو پانی والی چیزیں مثلا سادہ جوس وغیرہ پلایا جائے۔ بخار کی حالت میں معدہ آہستہ کام کرتا ہے اس لئے بخار میں بھاری غذا نہ لی جائے بلکہ پَتلی اور نرم غذاؤں مثلا دلیہ، کھچڑی، ساگودانہ، جوس، یخنی وغیرہ کا زیادہ استعمال کیا جائے۔ ٹھنڈی، کھٹی،تلی ہوئی اور بادی(پیٹ میں ہوا پیدا کرنے والی) چیزوں کے استعمال سے گریز کیا جائے۔
بخار کی فضیلت:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یوں تو تمام ہی امراض صبر کرنے والے کے لئےدرجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا سبب ہیں  لیکن بخار کو اس معاملے میں خصوصیت حاصل ہے یہاں تک کہ حضرت سیدنا اُبَی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بخار کے حصول کی دعا فرمائی۔(تفصیل کے لئے فیضانِ سنت، ص817 ملاحظہ فرمائیے) دردِسر اوربخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیا عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہوتے تھے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص118)
حضرت سیدنا امام جلال الدین سیوطی شافعی
عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے بخار سے متعلق ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کانام”کَشۡفُ الۡغُمَّہۡ فِیۡ اَخۡبَارِ الۡحُمّٰی“ ہے۔ (مراٰۃالمناجیح،ج 2، ص413 ملخصاً) بطورِ نمونہ بخارکی فضیلت پر مشتمل  چند باتیں پیشِ خدمت ہیں:
گناہوں کی معافی:فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: ایک شخص کو دردِ سر اور بخار ہوتا ہے اور اس کےگناہ اُحُد پہاڑ جتنے ہوتے ہیں، پھر جب یہ اس سے جدا ہوتے ہیں تو اس کے گناہوں میں سے ایک ذرہ بھی باقی نہیں ہوتا۔(شعب الایمان،ج7، ص176، حدیث: 9903)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُسے مروی ہے:جو ایک رات بخار میں مبتلا ہواور اس پر صَبْر کرے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی رہے تو اپنے گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اُس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جناتھا۔(شُعَبُ الْاِیمان،ج7، ص167، حدیث: 9868)
حکیم الامّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: اور بیماریاں ایک یا دوعضو کو ہوتی ہیں مگر بخار سر سے پاؤں تک ہر رگ میں اثرکرتا ہے،لہذا یہ سارے جسم کی خطاؤں اور گناہوں کو معاف کرائے گا۔(مراٰۃ المناجیح،ج2، ص413)
بخار تیرے لئے ہے گناہ کا کفارہ
کرے گا صبر تو جنّت کا ہوگا نظارہ
سرکار کو دو مَردوں کے برابر بخار آتا تھا:حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا ، جب میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکو چھواتو عرض کی:یَارَسُولَ اللہ! آپ کو تو بہت تیز بخار ہے! فرمایا: ہاں!  مجھے تمہارے دومَردوں کے برابر بخار ہوتا ہے۔ میں نے عرض کی: کیایہ اِس لئے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َکے لئے دُگنا ثواب ہوتاہے؟ ارشاد فرمایا:ہاں۔
( مسلم،ص 1066،حدیث:6559 )
میں کبھی بیمار نہیں ہوا:بعض لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میں کبھی بیمار نہیں ہوا ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کبھی بیمار نہ ہونا کوئی قابلِ فخر بات نہیں بلکہ ایسی صورت میں ڈر جانا چاہیے کہ کہیں میری نیکیوں کا بدلہ دنیا میں تو نہیں دیا جارہا یا پھر یہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر تو نہیں ہے؟منقول ہے کہ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدّت میں کبھی درد یا بخاریا بھوک میں مُبتلا نہیں ہوا۔
(
خزائن العرفان،پ9، الاعراف، زیرِ آیت:130)
بخار کی حالت میں نہانا:حدیثِ مبارک میں ہے:اَلْحُمّٰى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَاَبۡرِدُوۡهَا بِالْمَاءِ یعنی بخارجہنم کے جوش سے ہے، اس کو پانی کے ذریعے ٹھنڈا کرو۔ (بُخاری ،ج2، ص396حدیث:3263 )
اہلِ عَرَب کو اکثر ”صَفْراوی بُخار“ آتے تھے جن میں غسل مُفید ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو جو کہ عجمی یعنی غیرِ عَرَب ہیں طبیبِ حاذِق(ماہرطبیب)کے مشورے کے بِغیرغسل کے ذَرِیعےبخار کا علاج نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہمیں اکثر وہ بخار ہوتے ہیں جن میں غسل نقصان دِہ ہے، اِس سے نُمُونیہ کا خطرہ ہوتا ہے،ہاں کبھی ہم کو بھی بُخار میں غسل مفید ہوتا ہے حتّٰی کہ ڈاکٹر مریض کے سر پر برف بندھواتے ہیں۔حضرتِ سیِّدُنا مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ  اللّٰہ ِالْبَارِی” مِرقات“ میں فرماتے ہیں: ایک شخص نے حدیثِ پاک کا ترجمہ پڑھ کر بُخار میں غسل کیا تو اُسے نُمُونیہ ہو گیا اور بڑی مشکل سے اُس کی جان بچی تو وہ حدیثِ پاک ہی کا مُنکِر ہو گیا، حالانکہ یہ اُس کی اپنی جَہالت تھی۔
(مراٰۃ المناجیح،2/429تا 430ملخصاً)اس سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ عوامُ الناس کو ترجمہ کے ساتھ ساتھ تفسیرِ قراٰن وشُرُوحِ احادیث بھی پڑھنی چاہئیں۔(گھریلو علاج،ص88)