میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو! صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ
الّرِضْوَان سے بُغض و عداوت رکھنا دارَین (یعنی دُنیا و آخِرت) میں نقصان و خُسران کا سبب ہے چُنانچِہ حضرت عارِف باللہ
سیِّدُ نانو رُالدّین عبدُ الرَّحْمٰن جا می قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی اپنی مشہو ر کتاب
’’شَوا ہِدُ النُّبُوَّ ۃ‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں 3 اَفراد یَمَن کے سفر پر
نکلے ان میں ایک کُو فی (یعنی کوفے کا رہنے
والا ) تھاجو شَیخَینِ کر یمین ( حضرتِ سیِّدنا ابو بکر صدّیق اورحضر تِ سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما) کا گستاخ تھا،اُسے
سمجھایا گیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ جب یہ تینوں یمن کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قِیام
کیا اور سوگئے۔جب کُوچ کا وقت آیا تو اُن میں سے اٹھ کر دو نے وضو کیا اور پھر
اُس گستاخ کُوفی کو جگایا۔وہ اُٹھ کر کہنے لگا:افسوس! میں تم سے اِس منزل میں
پیچھے رہ گیاہوں ، تم نے مجھے عَین اُس وقت جگایا جب شَہَنْشاہِ عجم و عرب، محبوبِ
ربّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے سرہانے تشریف
فرما ہو کر ارشاد فرما رہے تھے:’’اے فاسق! اللہ عَزَّ وَجَلَّ فاسِق کو ذلیل و
خوار کرتاہے،اِسی سفر میں تیری شکل بدل جائے گی۔‘‘جب وہ گستاخ وُضو کے لیے
بیٹھا تو اُس کے پاؤں کی اُنگلیاں مَسْخ ہونا (یعنی بگڑنا)شروع ہوگئیں ،پھر
اُس کے دونوں پاؤں بندر کے پاؤں کے مُشابہ ہو گئے، پھرگُھٹنوں تک بندرکی طرح ہو
گیا،یہاں تک کہ اس کا
سارا بدن بندرکی طرح بن گیا۔اُس کے رُفَقاء نے
اُس بندرنُما گستاخ کو پکڑ کر اُونٹ کے پالان کے ساتھ باندھ دیا اور اپنی منزِل کی
طرف چل دیئے ۔ غُروبِ آفتاب کے وقت وہ ایک ایسے جنگل میں پہنچے جہاں کچھ بندر جَمْعْ تھے ، جب
اُس نے اُن کو دیکھا تو مُضطرِب(یعنی بے تاب) ہو کر رسّی چُھڑائی اور اُن میں جاملا۔پھر سبھی بندر اِن
دونوں کے قریب آئے تو یہ خائف(یعنی خوفزدہ) ہو گئے مگرانہوں نے ان کوکوئی اذیّت نہ دی اور وہ بندر نما گستاخ ان
دونوں کے پاس بیٹھ گیا اور انہیں دیکھ دیکھ کر آنسو بہاتا رہا۔ایک گھنٹے کے بعد
جب بندر واپَس گئے تو وہ بھی اُن کے ساتھ ہی چلا گیا۔
(شَوا ہِدُ
النُّبُوَّ ۃص۲۰۳ )
ہم
اُن کی یاد میں دھومیں مچائیں گے قیامت تک
پڑے
ہوجائیں جل کر خاک سب اعدائے عثمانی
(وسائل
بخشش ص۴۹۸)