Pasand Ki Shadi


پسند کی شادی

جب اولاد کو  اپنی پسند کی شادی کرنی ہوتی ہے اور ایسی جگہ شادی کرنی ہوتی ہے کہ جہاں اس کے عشق مجازی کے چکر چل رہے ہوتے ہیں اور وہ ناجائز اور حرام کام کے اندر مبتلا ہوتا ہے.

اب وہ  نکاح کے لیے والدین کو کہتا ہے کہ آپ وہاںمیرانکاح کروا دیں۔ اب والدین والدین ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ میری اولاد کا بھلا کہاں پر ہے تو لہذا وہ وہاں پر نکاح نہیں کرواتے اب یہاں پر لوگوں کو یاد آتا ہے کہ کیا ہمارا کوئی حق نہیں ہے والدین کے اوپر اور ہم کیا پسند کی شادی نہیں کر سکتے ۔

تو یاد رکھیے! اس طرح کی پسند کی شادی کی اسلام کوئی اجازت نہیں دیتا یعنی یہ جو سارے چکر چلتے رہے ہیں یہ سارے ناجائز اورجن سے بچنا آپ پر لازم ہے جو بھی یہ کہے کہ والدین پر ہمارے حقوق نہیں ہیں ذرا اپنے آپ کو اپنے والدین کی  جگہ پر رکھ کے سوچیں کہ جب آپ چھوٹے سے تھے تو اس وقت آپ کی والدہ کس طریقے سے آپ کی گندگی کو صاف کرتی تھیں کس کس تکلیف سے اس نے آپ کو پالا آپ کے والد صاحب آپ کے لیے کتنی محنت کر کے اتنا پال پوس کے آپ کو بڑا کیا اور آج آپ کو جب آپ کی خواہش کے خلاف ایک بات ہو گی تو اب آپ کو یاد آ رہا ہے کہ میں میرا کوئی والدین پر حق نہیں ہے ۔

کل بڑے ہو کر یہی کام اگر آپ کا بیٹا آپ کے ساتھ کرتا ہے تو آپ کیا کہیں گے ؟اسی طرح عورت کو سوچنا چاہیے کہ اگر کل کو میرا بیٹا یا میری بیٹی اس طرح کا معاملہ کرتی ہے تو پھر میں کیا کروں؟

 اس لیے اولاد کے حقوق سے انکار نہیں ہے لیکن اس طرح کے حقوق  کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔یہ جو پسند کی شادیوں کے چکر ہیں عمومی طور پر ناجائز طریقے سے آرہے ہوتے ہیں اور والدین جب منع کرتے ہیں تو والدین ڈھیروں باتیں اپنی اولاد کی بہتری کی دیکھ کر ہی اس کو منع کرتے ہیں لہذا اولادکو چاہیے کہ اپنے والدین کی پیروی کریں ،والدین کی اتباع کریں۔

https://youtu.be/Cog-pnjTC0o


بچے امتحان کی تیاری کیسے کریں؟


عموماً بچّے امتحانات (Exams) کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں، بہت  شرارتی بچے بھی امتحانات قریب آتے ہی ساری شوخیاں بُھول کر کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور محنتی بچے تو ان دنوں گویا کہ کھانا پینا ہی بھول جاتے ہیں۔ امتحانات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بچوں کی شگفتگی اورخوشیاں بھی اہم ہیں۔ لہٰذا امتحانات کے دنوں میں  والدین کو چاہئے کہ بچّوں کی جسمانی اور  ذہنی نشو و نَما  کا خاص خیال رکھیں۔جہاں تک بات ہے امتحانات کی تیاری کی تو اس معاملے میں بھی سب کچھ ٹیچرز پر ڈال کر خود کو بری الذِمّہ نہ سمجھیں بلکہ امتحانات کی تیاری میں خود بھی بچّوں کی مدد کریں۔ذیل میں چھ ایسے نِکات(Points) پیش کئے جارہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ امتحانات کی تیاری میں بچّوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
(1)ذہنی سکون و حوصلہ دیں:ہمارےتعلیمی نظام اور معاشرتی رویّے نے امتحانات کے معاملے میں بچوں کو بہت حَسّاس بنا دیا ہے اور امتحانات کے سبب وہ ذہنی دباؤ (Depression) کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں امتحانات کی تیاری کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے لہٰذا آپ کو چاہئے کہ انہیں پُرسکون کریں، حوصلہ دیں اور امتحانات کی تیاری میں درپیش مسائل پر بچّوں سے بات کریں اور انہیں حل کریں، یوں بچّے آپ کی دل چسپی اور تعاوُن کا اِحساس کرنے لگیں گے اور یہی احساس انہیں ذہنی سکون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید محنت پر اُبھارے گا۔
(2)شیڈول بنائیں:بچّوں کے ساتھ مِل جُل کر اس طرح کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس پر وہ بھی آسانی سے عمل کرکےامتحانات کی تیاری کرسکیں اور آپ کے معمولات بھی متأثِّر نہ ہوں نیز حتَّی الْاِمکان صبح کے وقت کو ترجیح دیں۔
 (3)چھٹیوں کی وجہ سے رہ جانے والا کام: بعض اوقات اسکول سے غیر حاضری کی صورت میں بچوں کا کچھ کام ادھورا (نامکمل) رہ جاتا ہے جسے بچّے کسی مجبوری یا غفلت کی وجہ سے پورا نہیں کرپاتے، کوشش کرکے پہلے ان کاموں کو خود یا اپنے بچّے کے ساتھی طالبِ علم (Class fellow) کی کاپی لے کر مکمل کروائیں تاکہ امتحانات کی تیاری میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
(4)مضامین کی تقسیم کاری:تمام مضامین (Subjects) کو برابر اہمیت دیں،کسی مضمون کو آسان سمجھ کر اس کی تیاری میں کوتاہی مت کرنے دیں اور اس طرح سے سمجھائیں کہ بیٹا! ممکن ہے کہ جس مضمون کو آپ آسان سمجھ رہے ہو اس کا سوالیہ پرچہ(Question Paper)آپ کی امید کے خلاف ہو اور کمرۂ امتحان(Examination Hall) میں آپ کو پریشان کردے۔ ہاں جن مضامین کو مشکل سمجھا جاتا ہے ان کی تیاری کو اِضافی وقت دیں اور انہیں بار بار دہرائیں تاکہ بعد میں بھول نہ جائیں۔
(5)کتاب کی تقسیم کاری:نصابی کتاب کے تین حصّے کر لیجئے (1)جسے بچّے کے اساتذہ (Teachers) نے اہم قرار دیا ہے (2)جس کے پیپر میں آنے کی امید ہو، ان دو حصوں کی تیاری کرنے کی صورت میں بچّے کے امتحان میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں (3)جس کا پیپر میں آنا بعید (دور) ہو، پہلے دو حصوں کے ساتھ ساتھ اس حصّے کی بھی تیاری کروائی جائے،بعض اوقات اسی کی دہرائی(Repeat)بھی پوزیشن پانے کا سبب بن جاتی ہے۔
(6)یاد کرنے کا انداز:بچّوں کو رٹّا (Cramming) لگوانے سے بچئے، اسباق کو سمجھ کر توجُّہ کے ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کو ان پر لازم کریں نیز اہم پیراگراف کو بِالکل مختصر اور پوائنٹس کی صورت میں لکھوائیں کہ کئی بار سرسری نظر کرنے کی بجائے ایک بار لکھ کر یاد کر لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ لکھتے وقت دماغ حاضر رکھنا پڑتا ہے اور لکھا ہوا سبق دماغ میں نسبتاً زیادہ محفوظ رہتا ہے۔
اہم بات:دنیوی امتحانات کی مصروفیت میں اپنے بچوں کو اُخْرَوِی امتحان سے غافل مت ہونے دیں، ان ایّام میں بھی تاکید کرکے انہیں نماز پڑھواتے رہیں،اللہ پاک کی بارگاہ میں دینی و دنیوی ہر امتحان میں کامیابی کی دعا مانگتے رہنے کی ترغیب  بھی دیتے رہیں۔مزید راہ نُمائی حاصل کرنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ سے چھپی ہوئی  کتاب ”امتحان کی تیاری کیسے کریں؟“  کا مطالعہ فرمائیں۔

مسلمان کا خون ، مال اور عزت مسلمان پر حرام ہے

مسلمان کا خون ، مال اور عزت مسلمان پر حرام ہے

ہماراپیارا مذہب اسلام ہر مسلمان کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے چنانچہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حرمت نشان ہے: کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَالُہٗ وَعِرْضُہٗ یعنی ہر مسلمان کا خون ،مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔
(مسلم ، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم  ظلم المسلم ۔۔۔الخ،ص ۱۳۸۶،حدیث:۲۵۶۴)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : کوئی مسلمان کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی اجازت نہ لے ، کسی کی آبروریزی نہ کرے ، کسی مسلمان کو ناحق اور ظُلمًا قتل نہ کرے ،کہ یہ سب سخت جُرْم ہیں۔                                           (مراٰۃ المناجیح ، ۶/ ۵۵۳)
مفتی صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: مسلمان کو نہ تو دل میں حقیر جانو ! نہ اُسے حقارت کے الفاظ سے پکارو ! یا بُرے لَقَب سے یاد کرو ! نہ اس کا مذاق بناؤ ! آج ہم میں یہ عیب بہت ہے ، پیشوں ، نسبوں ، یا غربت و اِفلاس کی وجہ سے مسلمان بھائی کو حقیر جانتے ہیں کہ وہ پنجابی ہے ، وہ بنگالی ، وہ سندھی ، وہ سرحدی ، اسلام نے یہ سارے فرق مٹا دیئے۔ شہد کی مکھی مختلف پھولوں کے رس چوس لیتی ہے تو ان کا نام شہد ہوجاتا ہے ۔ مختلف لکڑیوں کو آگ جلادے تو اس کا نام راکھ ہوجاتا ہے ۔ یوں ہی جب حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا دامن پکڑ لیا تو سب مسلمان ایک ہوگئے ، حبشی ہو یا رُومی!  (مراٰۃ المناجیح ، ۶/ ۵۵۲)







Neki Ki Dawat


اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

کُنۡتُمْ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالْمَعْرُوۡفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنۡکَرِ وَتُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ ؕ

ترجمہ کنزالایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں(۱)جولوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کاحکم دیتے ہواور برائی سے منع کرتے ہو(۲)اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۱۰)

تفسیر:

    (۱)خیال رہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی امت تمام امتوں سے افضل ہے ۔ بنی اسرائیل کا عالمین سے افضل ہونا اس وقت ہی تھا ۔ مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے جیسا کہ کُنْتُمْ سے معلوم ہوا ۔یہ بھی معلوم ہواکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت تمام عالم کی استاذہے۔
    (۲)اس سے معلوم ہوا کہ ہرمسلمان مبلغ ہوناچاہے۔ جو مسئلہ معلوم ہو دوسرے کو بتائے اور خود اس کی اپنے عمل سے تبلیغ کرے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کا ماننا اللہ کا ماننا ہے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا منکر رب عزوجل کا منکر ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔(تفسیر نور العرفان)